خدارا مریضوں کیلئے اسپتالوں کے دروازے بند نہ کریں
سوال یہ ہے کہ عدلیہ کو دستور کی پا بندی کرنی چاہیے یا وہ کام کرے جسے آئین و قانون اجازت نہیں دیتا۔اس بارے میں عدلیہ کو کچھ بتانا سورج کو چراغ دکھانا کے مترادف ہے۔ہمارے ہاں امریکہ کی مثال دی جارہی ہے کہ وہاں سپریم کورٹ ایسے کام کیوںنہیں کرتی ۔ راقم کو امریکہ میں کچھ وقت گزارنے اور سیکھنے کا موقع ملا ۔قانون کے طالب علم کی حثیت سے میرا کہنا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کی ساخت ہم سے مختلف ہے ۔وہ منتخب کیس سنتی ہے۔ ایسے کیس جن کا تعلق وفاق کے اختیارات سے ہو۔امریکہ میں عام آدمی اور حکومتی نظام میں ہر سطح پر حقوق کے تحفظ کا ایک میکنزم موجود ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہمارا عدالتی
نظام گوروں کابنایا ہوا چلا آ رہا ہے اور سپریم کورٹ امریکی طرز پر ہے۔ اسی ہفتے سپریم کورٹ کے لاجر بنچ نے جس معاملے میں حکومت کی باز پرس کی ہے ۔ وہ معاملہ بھی حقوق کی پامالی کا ہی ہے جن کے تحفظ کی ضمانت آئین نے دے رکھی ہے لیکن مشیروں کو ہٹانا یہ قانون و آئین کا نہیں بلکہ حکومتی پالیسی کا معاملہ ہے۔اس لئے یہ ساری باتیں بنچ میں زبانی ہوئیں کوئی آرڈر نہیں ہوا ۔ اس پر مزید سیر حاصل گفتگو کے لئے بغیر بتائے بابا کرمو سے ملنے صبح صبح چلا آیا ۔ بابا کرمو ناشتہ کر چکے تھے البتہ چائے پینا ابھی باقی تھا ۔ دیکھتے ہی کہا مجھے معلوم تھا کہ آج تم ضرور آئو گے ۔ پوچھا وہ کیسے ؟ بتایا کہ چیف جسٹس کا پہلا سوموٹو کیس لگا تھا ۔ میں بھی وہاں ماسک پہن کر موجود تھا ۔کمال ہے پہچان نہ سکا ۔کہا ماسک کی وجہ سے میں خود کو پہچان نہیں رہا تھا تم مجھے کیسے پہچانتے ۔ کہا اس روز وہ رونق بنچ ون میں نہ تھی جو ہمیں سو مو ٹو کیس میں افتخار چوہدری اور میاں ثاقب نثار دور میں دیکھنے کو ملا کرتی تھی۔ اس روز کیس کی صحیح تیاری بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایک دوسرے سے کوآرڈینیشن بھی نہیں دکھائی دیتی۔نوجوان اٹارنی جنر ل کی پرفارمس اچھی تھی۔ ڈاکٹر کو آئوٹ کرنے کی کوشش کو اٹارنی جنرل نے ناکام بنا دیا ۔ زبانی باتوں سے وزارت سے چھٹی کرا دی تھی لیکن آڈر میں نکالے جانے کا کئی ذکر نہیں تھا ۔اگر چیف صاحب اسی بات کو ہی پکڑے رکھتے جو چند روز سب کو بتائی تھیں کہ مجھے فیملی کو ساتھ لے کر پولی کلینک جانے کا اتفاق ہواتھا ۔ وہاں سوائے کرونا کے کسی دوسرے مریض کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔یہ اتنا بڑا پوائنٹ ہے جس سے یہ جان نہیں چھڑا سکتے تھے۔لیکن اس روز اس کے بارے میں کوئی سوال نہ اٹھایا سب چپ رہے جبکہ ان سے پوچھتے کہ آپ نے ایسا کیوں رویہ اپنایا ہوا ہے جیسے کوئی سڑک پر بلڈوزر لے آئے شور مچائے کہ بچ جائو بچ جائو سڑک کو خالی کر دو ۔ کیا بسیں ویگنیں ،کار یں ،بائک والے سب آگے سے ہٹ جاتے ہیں ۔ مان لیا کرونا وائرس سب بیماریوں کا سردار سہی ۔لہذا اب اس سردار کے ہوتے ہوئے کسی بھی چھوٹے بڑے اسپتال میں کسی دوسری بیماری کے مریض کو دیکھا نہیں جا سکتا ۔ جس کو دانت کا درد ہے ، جسے دل کا دورہ پڑا ہے ، جسے برین ایمرج ہے ، جسے معدے کا السر ہے ، جسے بلڈ پریشر ہائی ہے ۔وہ مریض بچارے جائیں تو جائیں کہاں ۔کیا ان مریضوں کو علاج کی ضرورت نہیں رہی ۔ کیا اب ہر جگہ کرونا کا ہی علاج ہوا کرے گا ۔ کاش اس پر لاجر بنچ بات کرتے اس کا جواب لیتے ان سے لیتے اور اپنا آڈر لکھواتے کہ تمام اسپتالوں سے کرونا کے مریضوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے ۔ ان اسپتالوں میں پہلے جیسا ہی مریضوں کا علاج کرنے کا حکم فرماتے ۔ اس آڈر سے ہر کوئی سکھ کا سانس لیتا ۔سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سے دوران سماعت اس کے چہرے سے ماسک اتروایا گیا تھاکہ آواز نہیں آ رہی ۔ اب سنا ہے جب سے ان کے اپنے ملازم کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اب چیف صاحب خود بھی ماسک پہن کر کیس سنتے ہیں۔بابا کرمو نے کہا ہاں میں بتا رہا تھا کہ اسی کیس میں حکومتی مشیروں اور معاونین پر بات کی ان پر اعتراضات اٹھائے لیکن کوئی آڈر میں نہیں لکھا یاکہ ان کی تعلیم ان کی تنخواہیں ان کارکردگی کی رپورٹ دی جائے ۔ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا گیا ۔اس پر راقم نے کہا بابا جی یہ چونکہ پالیسی معاملہ ہے اس لئے آڈر خاموش ہے۔بابا کرمو نے کہا اسلئے اب ان کی حمایت اور مخالفت میں بولا جا رہا ہے۔اٹارنی جنرل کے حوالے سے سرخی چھاپ دی گئی کہ پاکستان کو پہلی بار ایماندار وزیراعظم ملا جب کہ اب اس کی تردید کردی ہے ۔میں نے کہا تھا کہ ایماندار وزیراعظم ہے۔ اس سو مو ٹو کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی دکھائی دیا۔ جس کے بعد لگتا ہے ہر ادارہ دوسرے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں کیاداروں پر یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ چھچھ کیا دے چھاننی کو طعنہ ۔ہر ادارے کو اپنی چارپائی کے نیچے جاڑو پھیرنے کی اشد ضرورت ہے ۔کرونا وائرس ایک دم نہیں وارد ہوا ۔ اس پر دنیا میں دو ہزار گیارہ کو فلم بنی تھی لہذا یہ فوری طور پر وارد نہیں ہوا ۔ایسا نہیں ہوا جیسے ہم پر زلزلوں ، طوفان سے اچانک تباہی آتی رہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہماری اس سلسلے میں کوئی تیاری دکھائی نہ دی ۔ بھائی یہ تو کر سکتے تھے کہ کرونا وائرس کے مریضوں کو رکھنے کیلئے الگ جگہوں کا انتخاب کر لیا جاتا ۔ اب آپ نے تمام اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریض شامل کر دئے ہیں باقی تمام مریضوں کو ڈاکٹروں نے دیکھنا بند کر رکھاہے جبکہ جو اموات ہو رہی ہیں اس میں دوسری بیماریوں کے مریض بھی شامل ہیں۔ یہ ساری اموات کرونا کی وجہ سے نہیں ہوئیں ۔ کہا ں ہیں وہ مریض جو اچانک مر جایا کرتے تھے ۔ کیا ان کا مرنا اب بند ہو چکاہے ۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ی ظاہر کرتا ہے کہ ہماری کوئی پلاننگ نہیں تھی ۔قومی فیصلے غیر ذمہ دارانہ ہوئے ۔ اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے پر صوبے اور مرکزکی جنگ جاری ہے۔ کرونا کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ ہر جگہ دکھایا جا رہا ہے کہ ملک میں بھوک ننگ سے لوگ مر رہے ہیں ۔ایسے حالات تو ملک میں پہلے بھی تھے۔ ایسا کرونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہوئے ۔ ملک میں کئی عرصے سے نظام زندگی بری طرح متاثرہے ۔کافی عرصے سے کوئی انوسٹمنٹ نہیں ہوئی۔ اگر آج تعمراتی شعبے میں بلیک منی لگانے کی اجازت ہے توپھر جو لوگ اس بلیک منی کے کیس میں جیلوں میں ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے ۔ماضی میں کسی بھی شعبہ میں کوئی انوسمنٹ نہ ہو سکی ۔اس میں نیب کا رول سب سے اہم رہا جس شعبے میں بھی کوئی چائیے اسے دولت کو لگانے کی اجازت دے دی جائے۔ تاکہ مزدور کا پہیہ چلتا رہے ۔ جمعہ اور اب رمضان میں لگتا ہے گڑ بڑ ہو گی ۔کیوں ہو گی ۔ کیا عبادات مساجد میں ہی کرنے سے ہی قبول ہوتی ہیں جو وہاں نہیں جائے گا اس کی عبادت وہ قبول نہیں کرے گا ۔یہ انہیں کس نے بتا دیا ہے یہ بات درست نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ سعودیہ میں کیوں عبادات کی اجازت نہیں دی گئی ۔ یہ مشکل کی گھڑی ہے اس میں گھروں میں بیٹھ کر عبادت کریں ،دعائیں کریں ۔ وہ ذات جس کیلئے آپ عبادت کرتے ہیں وہ سب کے دلوں کے راز کوجانتی ہے ،سب کی وہ سنتا ہے ۔اپناایمان تو مضبوط کریں۔ یہ سمجھا جائے کہ ہم امتحانی مرکز میں بیٹھ چکے ہیں تمام جوڈیشری سمیت لاجر بنچ کے اور نیپ ،حکومتی وزرا مشیروں ،اس ملک کے تمام شہری بیٹھ چکے ہیں ۔کرونا وائرس کا پیپر اب سب کے سامنے ہے ۔ہر ایک کو اس پیپر کے حل کرنے کی فکر ہونی چائیے ۔بعض تو اب بھی اسے سنجیدہ نہیں لے رہے ۔ ایسے لوگوں کو ا ﷲ ہی ہدایت دے ۔لاجر بنچ سے گزارش ہے کہ عام مریض کیلئے اسپتالوں کے دروازے کھلے رکھیں ۔ کوئی آپریشن نہیں ہو رہے ۔ انہیں نارمل کام کرنے کو کہا جائے ۔ ہر ناک بہنے والے اور کھانسنے والے کو کرونا مریض نہ سمجھا جائے ۔