پاکستان کرکٹ بورڈ نے گورننگ بورڈ کا اجلاس کوئٹہ میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ بورڈ افسران نے اپنی تیاری کی، خیال یہی تھا کہ میٹنگ ہو گی، کارروائی ہو گی، مقصد حاصل ہو گا اور اس کے بعد اپنی حکومت ہو گی۔ گورننگ بورڈ اراکین کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ زیادہ مزاحمت نہیں کرتے اس پس منظر میں یہ آسان تھا کہ سب کاغذات پر باآسانی دستخط ہو جائیں گے۔ ایک طرف سب کو دیوار سے لگا کر اپنی کارروائی کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو دوسری بھی کوئی ہلچل ضرور تھی۔ یہ فرق ضرور تھا کہ اقتدار کے وسائل نہیں تھے، اختیارات نہیں تھے لیکن سوچ تھی، فکر تھی، بروقت کارڈز کھیلنے کا حوصلہ اور بروقت اور بہتر سیاسی فیصلے کی قوت ضرور تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ گورننگ بورڈ کے اراکین کو کسی نے کنٹرول کیا ہے، یہ سب حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، یہ کھیل کہیں اور تیار کیا گیا ہے۔ مان لیا جائے کہ یہ سب ایسے ہی ہوا ہے تو پھر بورڈ کے پالیسی ساز کیا کر رہے تھے جن کے پاس اختیار بھی تھا، وسائل بھی تھے، تعلقات بھی تھے، اقتدار بھی تھا حکومت بھی تھی۔ وہ سب اس کام میں کیوں ناکام رہے۔ بہرحال یہ مان لیا جائے کہ یہ سب باہر بیٹھ کر کسی نے پلان کیا ہے تو پھر اس نے اپنی اہمیت اور بہتر سیاسی فیصلوں سے کرکٹ بورڈ کے فیصلہ سازوں کو چت کر دیا ہے۔ اب تک سارے پتے اچھے انداز میں کھیل کر اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔
کوئٹہ اجلاس میں جو کچھ ہوا اس پر مختلف انداز میں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ہرکوئی اپنے انداز میں بات کر رہا ہے۔ کیا یہ سب اچانک ہو سکتا تھا۔ یقینا نہیں اسکے پیچھے پوری کہانی ہے۔ حالات اس سطح تک پہنچے ہیں تو یہ کرکٹ بورڈ کی انتظامی ناکامی ہے۔ رابطے کی کمی اور مفادات کا ٹکراؤ بھی ہے۔اگر گورننگ بورڈ کے اراکین اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں تو اپنے پرکشش مراعاتی پیکج کی منظوری کروانے والے بورڈ افسران کیا قومی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں؟؟
کرکٹ بورڈ کے کئی افسران باتوں میں اشاروں میں گورننگ بورڈ اراکین کو یہ بتاتے رہے ہیںکہ آپکا کھیل ختم ہو رہاہے، آپکی اننگز ختم ہو رہی ہے، اب ہماری باری ہے، بورڈ آف گورنرز نے ان پیغامات کو سنجیدہ نہ لیا کہ کیونکہ جمہوریت ہے، آئین و قانون کے تحت معاملات کو چلایا جا رہا ہے لیکن یہ نہ سمجھے کہ واقعی انکی قربانی کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ باتیں چلتے چلتے اجلاس کا وقت آن پہنچا، سب شان و شوکت سے کوئٹہ کے سفر پر روانہ ہوئے، وہاں پہنچے وزیراعلی بلوچستان کے ظہرانے پر گئے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اسی ملاقات میں احسان مانی نے وزیراعلی بلوچستان کو بتایا کہ ہم نے محکمے ختم کر دیے ہیں اور اب ریجن بھی ختم کر رہے ہیں۔ یہ گفتگو علاقائی تنظیموں کے صدر اور گورننگ بورڈ کے اراکین سن رہے تھے۔ وہ حیران ہوئے کہ اگر ریجن ہی ختم ہو گئے ہیں تو ہم یہاں کیوں ہیں۔ بہرحال کرکٹ پر باتیں ہوتی رہیں۔ یہاں سے سب ہوٹل پہنچے اب رات کو چیئرمین کرکٹ بورڈ نے اراکین کو کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ سب جمع ہوئے چیئرمین احسان مانی نے ریجنز کو ختم کرنے کا موقف دہرایا تو ایک رکن نے اعتراض کیا کہ آپ نے یہ بات وزیراعلیٰ کیساتھ میٹنگ میں بھی کہی تھی۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ بورڈ چیئرمین نے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ میرا کام ہے وزیراعظم کا بھی اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ وہی نظام بنے گا جو ہم بنائیں گے۔ اس دوران وہ بورڈ اراکین سے کرکٹ بورڈ کے سابق عہدے داروں کے بارے بھی منفی باتیں کرتے رہے۔ اسی کھانے پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے احسان مانی کو ایک ایسی میل بھی کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ان معاملات بارے باتیں کرتے ہوئے موجودہ چیئرمین احسان مانی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس کھانے پر بھی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھوڑا جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔ سرکلر ریزولوشن کی وجہ سے بورڈ ممبران کو یہ اندازہ تو تھا کہ انہیں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کے لیے یہاں لایا گیا ہے۔ سخت رویے نے حالات مزید الجھا دیے۔ کھانے کے بعد تمام اراکین ایک کمرے میں اکٹھے ہوئے جسے ہیڈ کوارٹر کا نام بھی دے دیا گیا۔ سب نے مل کر مشاورت کی اور اتفاق کیا کہ محکمہ جاتی کرکٹ کو بچانا، کرکٹ بورڈ میں ہونیوالی غیر آئینی تقرریوں اور ملکی کرکٹ کو بچانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم آئین کے محافظ ہیں اور اسکے خلاف ہونے والے اقدامات کی تائید نہیں کریں گے۔ ممکن ہے وہ پہلے ہی ذہن بنا چکے ہوں لیکن کرکٹ بورڈ والوں کے آمرانہ انداز میں انہیں مزید محتاط کر دیا۔ بس پھر کیا تھا ایک کاغذ تیار کیا گیا جسمیں تجاویز و مطالبات رکھے گئے اور میکنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی تقرری کو کالعدم بھی قرار دیا گیا یہ کاغذ کا ٹکڑا اگلے روز بورڈ میٹنگ میں پیش ہوا پھر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا پھر بورڈ ممبران باآواز بلند ایجنڈا مسترد کرنے اور تجاویز و سفارشات پر اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے آ گئے۔ اس کے بعد ایک سرکاری افسر نے کوشش کی کہ بگڑی بات بنائی جائے لیکن کوئی مثبت پیشرفت نہ ہو سکی۔ پھر فریقین میڈیا میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہے۔ اسی دوران کوئٹہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر کو انکے مقامی دوستوں کے منع کرنے کے باوجود چیئرمین پی سی بی کو ڈنر کی دعوت دینے ایک کمرے میں جا پہنچے۔ وہاں کرکٹ بورڈ کے دیگر افسران بھی موجود تھے۔ بورڈ چیئرمین برہم ہوئے تو شاہ دوست نے کہا سر وہ کرکٹ کی بات تھی یہ ہماری روایات ہیں کہ ہم مہمانوں کی عزت کرتے ہیں۔ آپ کھانے پر تشریف لائیں اور ہمیں میزبانی کا موقع دیں۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے کہا کہ جو آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہے اسکے بعد کھانے کاکوئی جواز نہیں۔ اس کے بعد "فائیو گائیز" نے آرام کیا اور پھر ڈنر کے لیے نکل گئے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ہوتا کیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونیوالی بدمزگی سے ساکھ تو متاثر ہوئی ہے اور پی سی بی انتظامیہ کی خامیاں بھی کھل کر سامنے آئی ہیں۔ بورڈ چیئرمین گورننگ بورڈ کو چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ بورڈ اراکین کی جائز باتوں کو مانا جائے اور بہتر حل کی طرف بڑھا جائے۔ جب کرکٹ ٹیم کے اہم عہدے اپنے لیے لاکھوں کی گاڑیوں اور دیگر پرکشش مراعاتی کی منظوری لیں گے تو دیگر افراد بھی اپنے مفادات کے لیے اتحاد کریں گے۔ اب گیند پی سی بی کے کورٹ میں ہے، وہاں کیا ہوتا ہے، بورڈ کیا کرتا ہے ، انکار کرنیوالوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اسمیں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ساتھ ہی بورڈ آف گورنرز کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو گیا انہیں اپنے بارے ربڑ سٹیمپ کے تاثر کو زائل کرنا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024