اس پیشکش کا پوری گہرائی سے جائزہ لیا جائے‘ کہیں ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘
سرحدی کشیدگی انتہاء کو پہنچانے والی مودی سرکار کی جانب سے کرتارپور راہداری پر فلائی اوور بنانے کی پیشکش
پاکستان اور بھارت میں کرتارپور راہداری پر تکنیکی نوعیت کے مذاکرات کے دوران بھارت کی جانب سے ڈیرہ بابانانک سے عالمی سرحد تک فلائی اوور بنانے کی پیشکش کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی ماہرین نے سو میٹر طویل فلائی اوور بنانے کی تجویز دی جس کیلئے اسکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ برسات میں پانی جمع ہونے سے علاقے میں دشواری ہوتی ہے۔ پاکستانی ماہرین اس بھارتی پیشکش پر اپنی رپورٹ متعلقہ وزارتوں کو پیش کرینگے۔ دریں اثناء نامزد سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے کہا ہے کہ پرامن ہمسائیگی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ بھارت کو الزام تراشی کا سلسلہ ترک کرکے تنازعہ کشمیر کو حل کرنا چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہوسکے۔ گزشتہ روز سبکدوش ہونیوالی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی اخبار نویسوں سے الوداعی ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل محمود نے کہا کہ ہم خارجہ پالیسی ایشوز پر میڈیا کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
اگر بھارت پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت پاکستان کے ساتھ اچھی ہمسائیگی استوار کرے اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات شملہ معاہدہ کی روشنی میں دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو یہ خطہ نہ صرف امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے بلکہ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے ساتھ اپنی اپنی معیشت کو ترقی و استحکام سے ہمکنار کرکے پاکستان اور بھارت ترقی یافتہ اقوام کی صف میں بھی نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ اس معاملہ میں پاکستان کی جانب سے ہمیشہ فراخدلی اور باہمی مذاکرات کے ذریعے کسی بھی تنازعہ کے حل پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے مگر بھارت کی جانب سے تشکیل پاکستان سے اب تک نہ صرف پاکستان کی آزاد و خودمختار حیثیت کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا بلکہ ہندو انتہاء پسندوں کے نمائندہ بھارتی لیڈران نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کو ہمیشہ پروان چڑھایا۔ سابق بھارتی حکمران کانگرس آئی نے اپنے پہلے اقتدار میں قیام پاکستان کے بعد تقسیم ہند کے فارمولے کو نظرانداز کرکے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اس پر بزور اپنا تسلط جمالیا جس کے بعد کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی جانب سے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کئے جانے پر بھارتی حکومت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی منحرف ہو گئی۔ اسی تناظر میں کانگرس آئی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائی‘ اس پر تین جنگیں مسلط کیں‘ اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی کمزور کرنے کی نیت سے ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کرلی۔ اسی طرح موجودہ بھارتی حکمران بی جے پی بھی اپنے پہلے اقتدار سے اب تک پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی اور پاکستان کے علاوہ مسلمانوں سے نفرت کو پروان چڑھانا بھی اپنے منشور کا حصہ بنالیا ہے۔ اسی منشور کے تحت بی جے پی بھارتی لوک سبھا کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام ریاستی انتخابات بھی لڑتی رہی۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی جو اس وقت لوک سبھا کے انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں اور پاکستان کیخلاف دھاڑتے چنگھاڑتے نظر آتے ہیں‘ پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں کانگرس آئی سے بھی زیادہ شدت پسند نظر آتے ہیں جو 1971ء کی جنگ میں سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونیوالی مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی حصہ بھی لے چکے ہیں۔
پاکستان دشمنی پر مبنی اپنے اس ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر ہی مودی نے بھارتی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان دشمنی کو فروغ دینا حکومتی پالیسی کا حصہ بنایا جس کے تحت کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی چوکیوں اور ملحقہ سول آبادیوں پر گولہ باری کرکے اشتعال پھیلانے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں پر مظالم کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جبکہ مودی سرکار نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں نہ صرف کسی بھی سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کی نوبت نہیں آنے دی بلکہ طے شدہ مذاکرات بھی سبوتاژ کئے جاتے رہے۔ باہمی تعاون کی علاقائی تنظیم سارک کو بھی غیرمؤثر بنا دیا اور ہر علاقائی اور عالمی فورم پر پاکستان کیخلاف دہشت گردوں کو تحفظ دینے کے الزام کے تحت پراپیگنڈہ تیز کردیا گیا اور بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی ہر دہشت گردی کا ملبہ بھی اسی سازش کے تحت پاکستان پر ڈالا جانے لگا جبکہ پاکستان کے ساتھ آبی تنازعات بھی گھمبیر بنا کر اسے پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کرنے کی خود نریندر مودی بڑھکیں لگاتے رہے۔ اس تناظر میں مودی سرکار کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی تعمیر کئے جانیوالے بھارتی ڈیمز کے پاکستانی آبی ماہرین کی ٹیم کو معائنہ کرانے سے بھی حیلے بہانے سے انکار کیا جاتا رہا اور پاکستان کی جانب آنیوالے دریائوں کا رخ موڑنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھارتی سپریم کورٹ سے یکطرفہ فیصلہ بھی لے لیا گیا۔ اسی طرح یواین جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس کے موقع پر اقوام عالم کو پاکستان سے بدگمان کرنے کیلئے اس کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا اور کسی بھی سطح کے مذاکرات کے دروازے عملاً بند رکھے گئے۔
گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا منصب سنبھالنے کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی کے خیرسگالی کے پیغام کے جواب میں بھارت کے ساتھ سازگار تعلقات کی بحالی اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی پیشکش کی جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر بھارتی پنجاب کے سینئر وزیر نوجوت سنگھ سدھو کی پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی خواہش پر کرتارپور راہداری کھولنے کا اعلان کیا۔ اگر مودی سرکار پر امن بقائے باہمی کے فلسفہ کی قائل ہوتی تو پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی بحالی کیلئے یہی نادر موقع تھا مگر مودی سرکار نے اپنے خبث باطن کے تحت جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی باہمی اتفاق رائے سے طے کی گئی باضابطہ ملاقات کی نوبت بھی نہ آنے دی جبکہ نوجوت سنگھ سدھو کے پاکستان کے آرمی چیف سے معانقہ کرنے پر جزبز ہو کر نہ صرف بھارت میں ان پر تنقید کے محاذ کھول دیئے گئے بلکہ کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل ہونے سے بھی رعونت کے ساتھ انکار کردیا گیا اور پاکستان کیخلاف بے بنیاد الزامات کی پٹاری کھول کر سرحدی کشیدگی بھی انتہاء کو پہنچا دی گئی۔
انہی مراحل میں پانچ بھارتی ریاستوں کے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا جس سے مودی سرکار کو لوک سبھا کے انتخابات میں بھی شکست نوشتۂ دیوار نظر آئی تو مودی نے پاکستان دشمنی کو فروغ دینے کا محاذ خود سنبھال لیا جس کا مقصد ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا۔ کشیدگی کے اسی ماحول میں پلوامہ خودکش حملہ میں 45 کے قریب بھارتی فوجی مارے گئے تو مودی سرکار نے بلاتحقیق و ثبوت اس دہشت گردی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال کر اس سے بدلہ لینے اور اندر گھس کر مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں اور پھر ان دھمکیوں کو پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کرکے عملی جامہ بھی پہنا دیا گیا۔ مگر یہ بھارتی کارروائی پاک فضائیہ کے سرعت کیساتھ تعاقب کرنے پر ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ ثابت ہوئی۔ جب اگلے روز بھارتی فضائیہ نے دوبارہ پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی کوشش کی تو پاک فضائیہ کے مشاق دستے نے اسکے دو جہاز گرا کر اور بھارتی پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے نہ صرف بھارتی جارحانہ عزائم کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ اقوام عالم میں اپنی عسکری دفاعی صلاحیتوں کی دھاک بھی بٹھا دی۔
کشیدگی کی اسی فضا میں بھارت نے کرتارپور راہداری پر مذاکرات کی پاکستان کی پیشکش پہلے قبول کی‘ مذاکرات کی جگہ کا تعین کیا اور پھر عین موقع پر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرلی۔ جب دوبارہ مذاکرات کی تاریخ طے ہوئی تو بھارت اس سے بھی عین موقع پر منحرف ہو گیا جس سے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور تنازعات حل کرنے کے معاملہ میں بھارتی بدنیتی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مودی سرکار کا پاکستان کے ساتھ پیدا کردہ کشیدگی کا یہی ماحول ہے جس کے تناظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام عالم کو خبردار کیا تھا کہ مودی سرکار اپنے جنگی جنون کے تحت پاکستان پر 16 اپریل اور 20 اپریل کے درمیان حملہ کرنے کا فیصلہ کئے بیٹھی ہے جس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی تاراج ہوسکتی ہے۔
ابھی بھارتی لوک سبھا کے انتخابات جاری ہیں جس کے دوران مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی کوئی شرارت کرنا بعیدازقیاس نہیں۔ اگر مودی سرکار کی پیدا کردہ کشیدگی کی اس فضا میں اسکی جانب سے کرتارپور راہداری کے حوالے سے ڈیرہ بابانانک سے عالمی سرحد تک فلائی اوور بنانے کی پیشکش کی جارہی ہے تو بادی النظر میں اس سے پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے مگر پاکستان کی سلامتی کیخلاف شروع دن کی بھارتی بدنیتی بالخصوص مودی سرکار کی جنگی جنونیت کے تناظر میں اس پیشکش میں بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف کوئی سازش ہی کارفرما نظر آتی ہے اور ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘ کے مصداق یہ کوئی بھارتی ٹریپ بھی ہو سکتا ہے اس لئے اس بھارتی پیشکش کے تمام ممکنہ پہلوئوں اور پس پردہ محرکات کا پوری گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے۔ بے شک اس پیشکش پر ہی بھارت کو تمام تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کی دوبارہ پیشکش کردی جائے اور پھر بھارتی ردعمل سامنے آنے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ مودی سرکار سے کسی خیر کی توقع تو ہرگز نہیں تاہم اسکی پیشکش کو اسکے رویے کے تناظر میں یکسر ٹھکرانا بھی مناسب نہیں۔ اگر مودی سرکار کی جانب سے یہ پیشکش پاکستان بھارت تعلقات کی بحالی کی نیت سے کی گئی ہے تو اس کا اندازہ بھارتی انتخابات کے نتائج کے بعد بخوبی ہو جائیگا۔