جمعرات ‘ 12 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 18؍ اپریل 2019ء
مسلم لیگ (ن) میں 40 رکنی فارورڈ بلاک کی تیاریاں
یہ تو عرصہ دراز سے پریکٹس چل رہی ہے۔ پہلے الیکشن کے بعد یہ ہوائی چھوڑی گئی کہ مسلم لیگ (ن) کے فصلی بٹیرے اورکھلی فضا میں پرواز کر کے دانہ دنکا چگنے والے کبوتر بہت جلد فارورڈ بلاک بنا کر پی ٹی آئی کی منڈیر پرنظر آنے والے ہیں۔ مگر افسوس ایسا کوئی تماشہ سیاسی مداریوں کی پوٹلی سے برآمد نہ ہوا۔ پھر خبر اڑی کہ ق لیگ والوں سے بہت سے مسلم لیگی (ن) کے آزاد منش سیاستدان ملنے والے ہیں مگر یہ حسرتیں بھی ادھوری رہ گئیں اور (ق) لیگ اور مسلم لیگ (ن) میں ابھی تک وہی دوریاں موجود ہیں جو پہلے سے تھیں۔ گرچہ اطلاع کی حد تک افواہیں یہ بھی ہیں کہ کچھ قوتیں ق اور ن کے درمیان من و تو کا فرق ختم کر کے یا ملاپ کرا کے تخت پنجاب پر قابو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں مگر پی ٹی آئی کی حکومت ہر اس افواہ کے بعد ق لیگ والوں کو ایک آدھ وزارت اور ایک آدھ مشاورت دے کر راضی کر لیتی ہے۔ اب اگر 40 ارکان کے فارورڈ بلاک کی یا بغاوت کی باتیں درست بھی ہیں تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں جب تک وہ اپنی آنکھوں سے اس 40 رکنی سکواڈ کو مارچ پاسٹ کرتے ہوئے یا پرواز کرتے ہوئے دوسری طرف جاتا نہ دیکھ لے۔ شاید یہ لوگ احتساب نامی ڈرامے کی طویل قسطیں دیکھ کر اُکتا گئے ہیں اور آئندہ قسطوں میں اپنا کردار شامل ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر ان کو بھی ڈرامے میں شامل کر لیا گیا تو پھر کیا بنے گا۔ سو اب دیکھنا ہے یہ 40 کا ٹولہ کب اور کیا کرتا ہے۔ لگتا ہے انہیں کسی علی بابا کی تلاش ہے تاکہ وہ اپنی طاقت پرواز کو آزما سکیں۔
٭٭٭٭
مودی، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سے دور رہیں ۔ شیو سینا کی دھمکی
شیوسینا والوں کے پاس کام ہی یہی رہ گیا ہے کہ وہ اپنی کٹھ پتلی قیادت اور کارکنوں کو یہ کرو یہ نا کرو کے احکامات جاری کرے۔ وہ بھارت کو ایک مکمل ہندو ریاست تو قیامت تک نہیں بنا سکتے البتہ قیامت سے پہلے ان کے ہاتھوں بھارت مزید کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ضرور نظر آتا ہے۔ ایک طرف کشمیر، دوسری طرف خالصتان ، تیسری طرف سیون سسٹرز ریاستیں یعنی میزو رام، ناگاہ لینڈ، تریپورہ، آسام وغیرہ بھارت کے جبری تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے کسی پر شیوسینا کا زور تو چلتا نہیں بلکہ سیون سسٹرز ریاستوں میں تو شیو سینا والوں اور بی جے پی والوں کی جو درگت وہاں کے عوام بناتے ہیں وہ دیکھ کر تو بال ٹھاکرے کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ وہاں بی جے پی، شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ یا بجرنگ دل کے رہنمائوں اور کارکنوں کو سرعام مارا پیٹا جاتا ہے۔ وہاں کسی کو ملک دشمن قرار دے کر اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی نہیں دی جاتی۔ بس لے دے کر زور صرف کشمیر والوں پر کیونکہ وہ مسلمان ہیں‘ بی جے پی اور شیوسینا والوں کا چلتا ہے۔ جہاں بدقسمتی سے محبوبہ مفتی ہو یا عمر عبداللہ جیسے میر قاسم اور میر جعفر انہیں مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اب تو شیو سینا والے اپنے انہی پالتو ساتھیوں پر بھی آنکھیں نکالنے لگے ہیں۔ سچ کہتے ہیں ننگ وطن لوگوں کی عزت کہیں نہیں ہوتی، انہیں ہر طرف سے جوتے ہی پڑتے ہیں۔ سو اب اگر مودی پھر جیت جاتا ہے تو کشمیر کی اس غدار قیادت کا انجام کیا ہو گا۔ یہ نہ تین میں رہیں گے نہ 13 میں۔ مگر ہیں یہ بھی بہت کائیاں یہ کسی بھی در پر جا کر اپنی مفت خدمات پیش کرنے میں ذرا بھر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ انہیں چاکری سے غرض ہے۔ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی۔
کراچی میں انٹر کے امتحان کا تیسرا پرچہ بھی آئوٹ ہو گیا
تین دن میں تینوں پرچے قبل از وقت کسی خفیہ راز کی طرح طشت ازبام ہونا محکمہ تعلیم سندھ کی بہترین اور اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالانکہ جہاں پرچے حل ہی موبائل فونز، ٹیسٹ پیپرز اور خلاصوں کی مدد سے کھلے عام ہو رہے ہوں وہاں خوامخواہ کی یہ بدنامی مول لینے کی کراچی بورڈ والوں کو ضرورت ہی کیا تھی۔ اب اس اعلیٰ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے باقی صوبوں کے امتحانی بورڈ بھی کہیں کوئی ایسا ہی مربوط نظام نہ وضع کر لیں کہ ہر روز پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی امیدواروں کے ہاتھ آ جائے اور وہ مناسب قیمت ادا کر کے صبح یہ پرچہ حل کرنے کے لیے امتحانی مراکز کا رخ کریں۔ اگر کراچی بورڈ والوں نے اور سندھ محکمہ تعلیم والوں نے یہی کچھ کرنا ہے تو بے کار میں طلبہ پر یہ امتحان کے نام کا خوف کیوں سوار کیا ہوا ہے۔ انہیں کیوں اس بیکار کی زحمت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ سیدھے سبھائو ہر سال پرچہ برائے فروخت کی لسٹ لگا کر واجبی یا مناسب قیمت لے کر امتحانی ہال میں طلبہ کی تحریری صلاحیت کا امتحان لیا جائے اور یہ امتحانی فیس کے نام پر لوٹ مار کا کاروبار بند کر کے والدین کے سر سے امتحانی فیس کا بوجھ ختم کیا جائے۔ دن رات محنت کرنے والے طالب علموں کے مستقبل سے یہ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ بے چارے تو پڑھ پڑھ کر سر کھپاتے ہیں اور نقل کرنے والے پرچہ خریدنے والے منٹوں سیکنڈوں میں پرچہ حل کر کے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیردیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ محکمہ تعلیم سندھ کو تیسرا پرچہ بھی آئوٹ ہونے پر ہیٹ ٹرک کی مبارکباد دیں یا اس نظام تعلیم کا قل پڑھیں جہاں امتحان کے نام پر قابلیت کا خون ہو رہا ہے۔ کیا اب یہ نظام تعلیم ابھی سندھ میں فوج یا رینجرز کے حوالے کرنا پڑے گا۔
٭٭٭٭
بچے کی نعش قبر سے نکال کر بھیک مانگنے والا گرفتار
ایک وقت تھا جب کفن چوروں کا دور دورہ تھا۔ دنیا بھر میں کفن چوری کے واقعات عام تھے۔ اس سے قبل کے دور میں لوگ قدیم قبرستانوں میں دفن امرا کی قبریں یا بادشاہوں کے مقابر اس بنیاد پر لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھوں تاراج ہوتے کہ ان میں خزانہ یا قیمتی اشیا بھی مردے کے ساتھ مدفون ہوتیں۔ جب سائنس کی ترقی کا دور آیا تو کفن چور اور خزانہ تلاش کرنے والوں نے بھی ترقی کر لی۔ اب خزانے دفن کرنے اوران کی تلاش کرنے میں بیکار وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ ڈاکو اور چور براہ راست کفن کے ساتھ مردے بھی چوری کرنے لگے۔ یہ چور کفن بازار میں اور مردے میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں فروخت کر کے مناسب رقم کھری کر لیتے ہیں۔ عرصہ دراز سے مردوں کی ہڈیاں تک فروخت کرنے کا کام اچھا خاصہ چل رہاہے۔ مگر اب یہ جو بادامی باغ کے قبرستان سے ایک بدبخت چور نے حرکت کی ہے اس کے بارے میں پڑھ کر ہی انسانوں کی بے حسی پر رونا آتا ہے۔ نجانے اور بھی کتنے بدبخت اس قسم کی وارداتیں کر رہے ہوں گے۔ یہ گروہ چھوٹے بچوں کی تدفین کے بعد ان کی تازہ قبر کھود کر ان کی نعش نکال کر کسی سڑک پر اسے اپنا مردہ بچہ ظاہر کر کے اس کے کفن دفن کے لیے لوگوں سے رو رو کر بھیک مانگتے ہیں۔ ظاہر ہے لوگ ترس کھا کر معقول رقم انہیں دے دیتے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں زندوں کو کوئی پوچھے نہ پوچھے مردے کا احترام سب کرتے ہیں۔ سو یہ چور بھی اسی احترام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭