2002ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد موقع پرستی اور مفاد پرستی کی سیاست نے ترقی کی رفتار کو متاثر کیا ۔ آصف علی زرداری کا دور ظاہری طور پر پارلیمانی تھا مگر طاقت اور اختیارات کا مرکز صدر آصف زرداری تھے۔ انہوں نے صدارتی نظام کے طور پر ریاست کو چلایا ۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے تیسرے دور کو پارلیمانی جمہوریت کے بجائے بادشاہت کے طور پر چلایا وہ کابینہ کے اجلاس نہیں بلاتے تھے اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے رہے۔ سپریم کورٹ نے انکے کئے فیصلے جو کابینہ کی منظوری کے بغیر کیے گئے تھے‘ کالعدم قرار دے دئیے۔
پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے مفاہمت کر کے آئین میں ترمیم کی جس کے تحت اراکین پارلیمنٹ سے اختلاف رائے کا جمہوری حق چھین لیا۔ پارلیمنٹ کے بجائے پارٹی لیڈر طاقت کا مرکز بن گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام معروف عالمی اصولوں کے مطابق پارلیمانی نہیں ہے بلکہ عملی طور پر صدارتی نظام کے قریب تر ہے تو پھر کیوں نہ منافقت کو چھوڑ کر صدارتی نظام کو موقع دیا جائے۔ پاکستان کے عوام صدر کو براہ راست منتخب کریں جو عوام کو جواب دہ ہو اور عوامی طاقت سے ریاست کا نظم و نسق چلائے۔ 2008ء سے 2018ء تک تسلسل کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ دس سالہ پارلیمانی دور کے دوران جمہوری اور سیاسی استحکام مفقود رہا۔ عالمی سروے کیمطابق جمہوریت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 167 جمہوری ممالک میں 112 نمبر پر آتا ہے یعنی پاکستان کا شمار ناکام ترین جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ جب تک سیاسی استحکام نہ ہو، معاشی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ۔لہٰذا ناکام سیاسی اور جمہوری تجربات کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جمہوری صدارتی نظام کو موقع دیا جائے۔ گزشتہ 10سالہ پارلیمانی جمہوری دور میں ڈیموکریسی کو ڈاکو کریسی بنا دیا گیا۔ ریکارڈ توڑ غیر ملکی قرضے لے کر آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا گیا۔
درجنوں خاندانوں کے اثاثے ریاست کے اثاثوں سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئے۔ منی لانڈرنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ پارلیمانی جمہوریت کے نام پر دو پاکستان بنا دئیے گئے ، ایک امیروں کیلئے اور دوسرا غریبوں کیلئے۔ قانون بھی دو ہیں، امیر کیلئے الگ ہے اور غریب کیلئے الگ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان محترم آصف سعید کھوسہ نے درست کہا ہے کہ انصاف پارلیمنٹ کی ترجیح نہیں ہے۔ غیر جانبدار تبصرہ نگار متفق ہیں کہ پارلیمانی نظام میں جمہوریت کو طبقاتی خاندانی اور موروثی بنا دیا گیا ہے جسے اب عوامی جمہوری صدارتی نظام کے ہتھیار سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
پارلیمینٹ کی کارکردگی افسوسناک رہی ہے۔ کورم ٹوٹتا رہا وزیروں نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دی سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا شدید احتجاج ریکارڈ پر ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔پارلیمانی نظام عوام کو بنیادی حقوق تعلیم صحت روزگار صاف پانی فوری سستا انصاف اور امن امان دینے میں ناکام رہا ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی اور محرومی بڑھی اور وہ انتہا پسندی دہشت گردی اور علیحدگی پسندی پر مائل ہوئے۔ پارلیمانی نظام قومی سلامتی اور ملکی آزادی کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ گزشتہ 10 سال کے دوران ٹی وی ٹاک شوز میں بیڈ گورننس کا ماتم کیا گیا۔ کالم نگاروں نے اخبارات میں مرثیے لکھے ججوں نے اپنے فیصلوں میں نوحہ خوانی کی۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کر کے ناکامی کا اعتراف کیا۔ ان ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں پارلیمانی نظام کی حمایت وہی لوگ کر سکتے ہیں جنکے ذاتی خاندانی مفادات اس نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر پارلیمانی نظام کو مستحکم اور سماجی بنانے کیلئے اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت لاتیں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عوام کو مقامی حکومتوں کا اختیار دیا جاتا۔ سینیٹ کی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جاتے تو آج پارلیمانی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہونے کی بجائے فعال اور متحرک ہوتا اور صدارتی نظام کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں اقلیت اکثریت پر حکومت کرتی ہے۔ پندرہ سے بیس فیصد ووٹ حاصل کرنیوالی سیاسی جماعت 22 کروڑ عوام کے مقدر کی مالک بن جاتی ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے اربوں روپے اراکین پارلیمنٹ کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ مروجہ جمہوری نظام میں کوئی اہل دیانتدار اور بے لوث شہری انتخاب لڑنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ پارلیمانی جمہوری نظام اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اسکے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے لازم ہے کہ فرسودہ پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کا جمہوری آپشن استعمال کیا جائے جو قرآن اور سنت کے نظام خلافت کے زیادہ قریب ہے۔ پاکستان کے آئین میں صدارتی نظام کی گنجائش موجود ہے۔ صدر صوبائی گورنر اور مقامی حکومتیں آئین کا حصہ ہیں۔ ریاست کے سربراہ صدر اور صوبائی گورنروں پر قومی خزانے کے اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ انکو اگر اختیارات دئیے جائیں تو یہ فیصلہ جمہوری اور آئینی ہوگا۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خلوص نیت کے ساتھ انقلابی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں مگر موجودہ پارلیمانی نظام انکے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس نظام کی وجہ سے وہ بلیک میل ہو رہے ہیں اور ریاست جمود کا شکار ہو چکی ہے ۔ حکمران اشرافیہ نے ریاستی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عمران خان اگر پاکستان کے صدر ہوتے تو کابینہ کا سائز چھوٹا ہوتا اور وفاقی وزیر سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ میرٹ پر نامزد کیے جاتے۔ موجودہ بحران کا واحد اور پائیدار حل یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے مطابق آئینی ریفرنڈم کرایا جائے اور عوام سے رائے لی جائے کہ کیا وہ پارلیمانی نظام سے مطمئن ہیں اگر نہیں تو صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمانی نظام سے عاجز اور پریشان عوام صدارتی نظام کے حق میں فیصلہ دینگے۔ ترکی اور سری لنکا پارلیمانی نظام ترک کرکے اور صدارتی نظام اپنا کر ترقی کر رہے ہیں ، پاکستان یہ جمہوری تجربہ کیوں نہیں کر سکتا۔
اٹھارویں ترمیم میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہو چکا ہے لہذا جمہوری صدارتی نظام میں صوبے خود مختار ہوں گے عوام کے ووٹوں سے منتخب صدر ریاست کا نظم و نسق چلائے گا جبکہ سینیٹ قومی اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کریں گی جو ان کا پہلا آئینی فریضہ ہے- پارلیمانی نظام میں میاں نواز شریف پنجاب کی سیاسی پارلیمانی طاقت کی بنیاد پر تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے لہذا صدارتی نظام کے بارے میں یہ سوال اٹھانا درست نہیں کہ صدر پنجاب سے ہی منتخب ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی نئے صوبوں کے بارے میں قراردادیں موجود ہیں لہٰذا انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے تشکیل دیکر جمہوریت کو مساوی اور شراکتی بنایا جا سکتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرا کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کو اقلیت کی بجائے اکثریتی رائے عامہ کا نمائندہ بنایا جا سکتا ہے۔ سیاسی اجارہ داریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق انتظامی اور سیاسی اختیارات منتقل کرکے جمہوریت کو مستحکم اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ صدارتی نظام چیک اینڈ بیلنس عدلیہ کی آزادی شفاف یکساں احتساب اور ریاستی اداروں کے استحکام کو یقینی بنائے گا۔ مضبوط اور طاقتور صدر کی موجودگی میں کسی ریاستی ادارے کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ صدارتی نظام کیلئے نیا آئین تشکیل دینا پڑیگا۔ ماہرین قانون کیمطابق آئینی ریفرنڈم کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل اور استحکام اور معاشی استحکام کیلئے صدارتی نظام ہی بہترین اور قابل عمل جمہوری آپشن اور 22 کروڑ عوام کی ضرورت ہے۔ ( ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024