قومی ٹیم کی سلیکشن میں ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی مرضی کیخلاف کچھ نہیں ہو سکتا، بی بی سی
کراچی (بی بی سی )پاکستانی کرکٹ کی یہ پرانی روایت رہی ہے کہ پانچ روزہ کرکٹ کی کارکردگی پر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے اور محدود اوورز کی کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑی کو ٹیسٹ ٹیم میں منتخب کرلیا جاتا ہے۔آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان کی جس ٹیم کا سلیکشن ہوا ہے اس میں بھی یہ نکتہ واضح طور موجود ہے جس کی وضاحت چیف سلیکٹر انضمام الحق نے بھی کر دی ہے کہ چونکہ 2019 میں ورلڈ کپ انگلینڈ میں ہونا ہے لہذا اسے ذہن میں رکھ کر موجودہ ٹیم میں نوجوان کرکٹرز کو موقع دیا گیا ہے۔اگر انفرادی طور پر کھلاڑیوں کے سلیکشن پر بات کریں تو سب سے نمایاں نام جو ٹیم میں موجودگی پر سب کو حیران کرتا ہے وہ ہے بابراعظم۔بابر اعظم ان چند کرکٹرز میں سے ہیں جن کے باصلاحیت ہونے پر کسی کو شبہ نہیں لیکن ان کی صلاحیتیں ہمیں محدود اوورز کی کرکٹ میں ہی زیادہ نظر آئی ہیں اور وہ ٹیسٹ کرکٹ میں اپنا سلیکشن درست ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔بابراعظم کی ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل مایوس کن کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2017 میں انھوں نے چھ ٹیسٹ کی بارہ اننگز میں 16 اعشاریہ 72 کی اوسط سےصرف 184 رنز بنائے جس میں دو نصف سنچریاں شامل تھیں اور وہ پانچ مرتبہ صفر پر بھی آؤٹ ہوئے۔ان مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود بابراعظم کو ٹیسٹ ٹیم میں شاید اس لیے لیا گیا ہے کہ انھوں نے حالیہ پی ایس ایل میں پانچ نصف سنچریاں بنانے کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی دو نصف سنچریاں بنا ڈالیں۔نوجوان اوپنر امام الحق کا سلیکشن بھی ون ڈے کی کارکردگی پر ٹیسٹ ٹیم میں سلیکشن کی ایک اور مثال ہے۔امام الحق نے اپنے اولین ون ڈے انٹرنیشنل میں سنچری بنا کر اپنے روشن مستقبل کی نوید سنائی تھی اور 2016 کی قائد اعظم ٹرافی میں ان کے848 رنز شامل تھے لیکن اس سال قائداعظم ٹرافی کے پانچ میچوں کی آٹھ اننگز میں وہ صرف 222 رنز سکور کرسکے۔ کیا اس کارکردگی پر وہ ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہوسکتے تھے ؟پاکستانی کرکٹ حلقوں میں گذشتہ کچھ عرصے سے یہ تاثر اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ کوئی بھی سلیکشن ہو وہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا یہ کہنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے کہ فاسٹ بولر وہاب ریاض نے پچھلے دو سال سے پاکستان کو کوئی میچ نہیں جتوایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2014 سے اب تک وہ پاکستان کے سب سے کامیاب فاسٹ بولر ثابت ہوئے ہیں اور وہ اس عرصے میں 19 ٹیسٹ میچوں میں 66 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔اگر یہ کہنا کہ انھوں نے کوئی میچ نہیں جتوایا تو مکی آرتھر یہ بتائیں گے کہ اس عرصے میں کس دوسرے فاسٹ بولر نے ٹیسٹ میچ جتوایا ہے؟مکی آرتھر اس لحاظ سے خوش قسمت کہے جا سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ٹیم کے کوچ ہیں جو چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح ہے۔وہ ایک ایسی ٹیم کے کوچ ہیں جو ٹی ٹوئنٹی میں عالمی نمبر ایک ہے لیکن یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ اس ٹیم کے بھی کوچ ہیں جو ان کی کوچنگ میں 17 میں سے 11 ٹیسٹ میچز ہاری ہوئی ہے اور اگر ان ناکامیوں میں تین کپتان مصباح الحق، اظہرعلی اور سرفراز احمد ذمہ دار ہیں تو اتنی ہی ذمہ داری کوچ کی حیثیت سے مکی آرتھر پر بھی عائد ہوتی ہے۔