جو کام اکادمی ادبیات پاکستان کر سکتی تھی، اب تک نہیں کیا۔ اب یہ ادیبوں ، شاعروں کیلئے سرکاری ادارہ نہیں اب تو آل پاکستان رائٹرز کانفرنسیں بھی اسلام آباد میں نہیں ہوتیں۔ آجکل جوائنٹ سیکرٹری کے منصب پر فائز عبدالحمید نیازی کے پاس اس کے چیئرمین کیلئے عارضی چارج ہے۔ وہ اس عارضی چارج کے دوران بھی کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ ادیب شاعر حیران رہ جائیں۔ انہیں مستقل طور پر بھی یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے کہ وہ اس نمائندہ سرکاری ادبی ادارے کو خوش اسلوبی سے چلا سکیں۔ اس طرح کے واقعات تو نہیں ہونگے۔میں نے عبدالحمید نیازی کا نام بجنگ آمد میں پڑھاہے۔
ایک شاعر غضنفر ہاشمی نے امریکہ میں پاکستان اکادمی ادبیات بنا لی ہے اور خود بلکہ خود بخود اس کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں۔ اپنی پوسٹنگ کسی اہم عہدے کیلئے خود کر لینے کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے۔
چند دنوں کے بعد پاکستان والی اکادمی کو امریکہ میں قائم ادبی اکادمی کی ذیلی شاخ قرار دیا جائے گا تو پھر نیازی صاحب ہاشمی صاحب کی ہدایات کے مطابق کام کریں گے۔ اس طرح پوری دنیا میں پاکستان اکادمی ادبیات بنتی چلی جائیں گی اور یہ بھی ہوگا کہ کل پاکستان رائٹر کانفرنس نیویارک میں ہوگی۔
امریکہ میں پاکستان اکادمی ادبیات کی حیثیت پاکستان میں پاکستان اکادمی ادبیات سے زیادہ ہوگی۔ اس طرح کے اعلانات حکومت پاکستان کی طرف سے نہیں ہوں گے۔ ایک آدمی ذاتی طور پر ایک پاکستانی ادارہ بیرون ملک بناتا ہے اور اپنے آپ کو اس کا چیئرمین مقرر کر لیتا ہے۔ یہ عجیب پیش رفت پاکستان کے حوالے سے شروع ہو رہی ہے۔
اب عالمی طاقتوں کیلئے جنگ کرنے کا کوئی چانس نہیں، امکان نہیں۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے چھوٹے اور کمزور ملکوں پر مل کر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ کمزور ملک آجکل دنیا میں صرف مسلمان ملک ہیں۔ شام پر امریکہ، برطانیہ، جرمنی نے مل کر حملہ کیا ہے۔ اسی لئے مشق ستم بھی وہی ہیں۔ مسلمان ملکوں کی پالیسیاں امریکہ اور یورپ میں بنتی ہیں۔ مسلمان ملکوں میں انصاف نہیں ہے اور حکومتیں ظلم و ستم کے ماحول میں چل سکتی ہیں مگر انصاف کے بغیر نہیں چل سکتیں۔
کشمیری لیڈر یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے کہا ہے کہ ”بھارت بچیوں سے زیادتی کر کے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے“ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بڑی بڑی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں مگر ایسا چمکدار اور ہتھیار کے طور پر نظر آنے والا جملہ میں نے پہلی بار پڑھا ہے۔ ناصر اقبال خان نے ایک تقریب مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مشال ملک کے ساتھ منعقد کی تھی۔ جس میں مشال بی بی نے بھی شرکت کی اور بہت درد مندی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان کی باتوں میں حاضرین نے بہت دلچسپی کا اظہار کیا۔
ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیاستدانوں اور حریت پسندوں کی سرگرمیاں دیکھتے رہے ہیں مگر اب مسئلہ کشمیر ایک موثر اور خوبصورت تاثر کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اس میں مشال ملک سے بڑی امید ہے کہ وہ اس مسئلے کو پاکستان میں ایک نیا رنگ دیں گی۔
ابھی ابھی مجھے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر اختر شمار کا ادبی رسالہ ”بجنگ آمد“ کا نیا شمارہ ملا ہے۔ اس دور میں رسالہ باقاعدگی سے شائع کرنا اور پھر وہ ادبی نمائندگی کے بوجھ سے جھکا ہوا ، بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار کے ادبی ارادے خطرناک لگتے ہیں۔ اپنے اس رسالے کے ذریعے ادبی گروہ کو ایک قبیلہ بنانے کی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔
اس رسالے میں ایک نوجوان شاعر اختر رضا سلیمی کا ایک جملہ بڑا زبردست ہے۔”اچھے تخلیق کار میں اپنے لکھے ہوئے کو رد کرنے کا بھی حوصلہ ہونا چاہئے“۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچرل(پلاک) کے زیراہتمام ”میلہ چراغاں2018“ کا تذکرہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صغر یٰ صدف کی تصویر رسالے کے سرورق پر موجود ہے، ڈاکٹر صغریٰ صدف ”پلاک“ میں بھرپور تقریبات کرتی ہیں مگر ہمیں اس کی اطلاع ملتی ہے جب ”بجنگ آمد“ کا نیا شمارہ منظر عام پر آتا ہے۔
رسالے کے معیار کا اندازہ تحریروں کے عنوانات سے ہوتا ہے” آرزو نصف زندگی ہے اور بے حسی نصف موت“ تیمور اختر نے اپنی مرتب کردہ تحریر سماجیات و مزاحیات میں لکھا ہے” گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی، صاحب خانہ کے دوست کو بتایا گیا کہ صاحب خانہ مری گئے ہوئے ہیں تو دوست نے کہا اچھا ہے آرام اور تفریح کیلئے گئے ہونگے۔ خادم نے جواب دیا نہیں جی ان کی بیگم بھی ساتھ ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38