صوبائی خودمختاری تو بڑی دُور کی بات ہے، بلوچوں کو حاکمیت کا احساس تک نہیں دلایا جا رہا۔ اکیسویں صدی میں بھی وہ مجبور اور مقہور ہیں اور غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں جب صوبوں کو مزید اختیارات دینے کے سلسلے میں جسٹس فضل اکبر کی سربراہی میں کمیشن بنا تو غوث بخش بزنجو مرحوم نے ان جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مستونگ میں ایک نہایت تندوتیز تقریر کی تھی۔(میں اس وقت AC مستونگ تھا) پہاڑوں کی برف جیسے سفید بال اور چہرے پر غوروفکر کی گہری لکیریں لئے ایک بلوچ سردار گرج رہا تھا۔ ”ان ظالمانہ آرڈیننسوں ڈگریوں اور کالے قوانین کے تحت آپ کب تک عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کو دبائے رکھیں گے ۔کب تک رُوح عوام ان تازیانوں کو برداشت کرے گی۔ یہ اندھیرے کب تک روشنی کو روکیں گے؟ تقریر بڑی جاندار تھی آواز کا زیرو بم بہت متوازن اور لہجے میں تلوار کی سی تیزی اور کاٹ تھی۔ فضل اکبر بڑی توجہ اور انہماک سے نوٹ لیتے رہے لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات اس ملک میں کمیشن تو بہت بنتے ہیں صرف رپورٹ دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتی۔
آج تک جتنی حکومتیں آئی ہیں عملاً وہ تین میں رہی ہیں نہ تیرہ میں، البتہ ہمہ مقتدر قوتوں کا موقف یہ رہا ہے کہ کچھ بلوچ سرداروں نے پاکستان کا قیام دل سے قبول نہیں کیا۔ ہندوستان میں سینکڑوں ریاستیں تھیں جو دونوں ملکوں میں مدغم ہو گئی ہیں لیکن کسی ریاست نے اس طرح اور اس انداز میں ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ کشمیر میں جو مسلح جدوجہد ہو رہی ہے اس کی وجہ الگ ہے۔ مسلمان کسی طور بھی ہندو کی غلامی میں زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ صوبے میں پنجابیوں اور دیگر ان کو یک بینی و دو گوش نکال دیا گیا ہے۔ انہیں اپنی جائیدادوں سے محروم کر دیا گیا ہے، چُن چُن کر قتل کیا گیا ہے۔ اس پر تو بلوچ قیادت حرفِ شکایت لب پر نہیں لاتی۔ صرف چند روپوش لوگوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے، سکولوں میں قومی ترانہ پڑھنے نہیں دیا جاتا عمارتوں پر قومی پرچم لہرایا نہیں جا سکتا۔ نوخیز کونپلوں کا مستقبل اس لئے تاریک بنا دیا گیا ہے کہ اساتذہ کو چُن چُن کر قتل کیا گیا ہے دیگر ترکِ سکونت پر مجبور ہوگئے ہیں۔
گویا الزام تراشی تو دونوں طرف سے ہو رہی ہے لیکن کوئی فریق بھی اپنے آپ کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ ہمارے مُنشی منقے ،خود ساختہ تجزیہ نگار اور انتہائی خودغرض اور کوتاہ نگاہ لیڈر یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ سارا مسئلہ اس لئے پیدا ہوا ہے کیونکہ بلوچوں کو ان کے حقوق نہیں ملے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس آرکسٹرا میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن پر حقوق دینے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ کیا ہزاروں کی تعداد میں کلپر بگٹیوں کو بغیر کسی وجہ سے ان کے گھر سے نکال دینا اور مہاجر بنا دینا ان کے حقوق غصب کر دینے کے مترادف نہیں تھا؟ اس مسئلے کی گھمبیر تاکو لوگ پوری طرح اس لئے نہیں سمجھ پائے کیونکہ ان کو نکالنے والے شخص کی وزیراعظم سے ذاتی دوستی تھی کسی بڑے بلوچ سردار نے بھی اس واقعے کی مذمت نہیں کی۔ میں اس وقت ڈی سی ڈیرہ غازی خان تھا جب میں نے وزیراعظم کی توجہ ان مفلوک الحال پناہ گزینوں کی طرف دلائی تو عملاً ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہنے لگے۔ ”آہستہ بولو اور ان کی اشک شوئی کرتے ہو“ ۔
جب حق تلفی کی بات ہوتی ہے تو ایک طویل عرصہ تک مارشل لاءرہا ۔مارشل لاءخشک وتر میں تمیز نہیں کرتا۔ پنجابیوں، سندھیوں اور پختونوں نے بھی اتنا ہی Suffer کیا ہے جتنا ہمارے بلوچ بھائیوں نے نقصان اٹھایا ہے جن لوگوں کو ضیاءدور میں کوڑے مارے گئے ہیں ان کی اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی تھی۔ بھٹو کی یاد میں خود سوزیاں بھی انہی لوگوں نے کیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک سابق ڈپٹی کمشنر کا منہ کالا کر کے اسے سربازار اس لئے رسوا کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پنڈی کلب میں بیٹھ کر حاکمانِ وقت پر تنقید کر بیٹھا تھا۔ کیا آپ نے ایک ریڑھی بان، خوانچہ لگانے والے، سبزیاں اور پھل بیچنے والے کا سوچا ہے جس کے حقوق ہر روز سلب ہوتے ہیں اور عزت نفس صبح و شام مجروح ہوتی ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل پہلے تو ماں بہن کی گالی دے کر اسے ریڑھی ہٹانے کا کہتا ہے اور پھر نہایت ڈھٹائی سے سیب یا امرود اٹھا کر بغیر قیمت ادا کئے کرچ کرچ کر کھانا شروع کر دیتا ہے کارل مارکس کہتا ہے۔
History is not hing but Exploitation of man by man اگر اس کی رُوح وطنِ عزیز کا طواف کرتی ہے تو دیکھتی کہ یہاں قانون جنگل ہے Suvrival of the Fittest پر بڑی مچھلی چھوٹی کو نگل جاتی ہے۔ ہر بڑا درندہ خرگوشوں، لومڑیوں اور معصوم پرندوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتاہے۔
ETHNIC GROUP کی اپنی نفسیات، عادات، روایات اور طور طریقہ ہوتا ہے۔ ویسے تو عزتِ نفس ہر شخص میں ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ حساس نہیں صاف دل، سخت کوش و سخت جان، حماقت کی حد تک غیرت مند اگر دل میں غبار ہے تو ہاتھ میں ہتھیار ہے۔ یہ نہیں کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام یہی وجہ ہے کہ چند خود غرض اور ہشیار لوگ انہیں آسانی سے ورغلا اور بہلا پھسلا لیتے ہیں۔
اختر مینگل نے جن خدشات کا ذکر کیا ہے انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے الیکشن نہ صرف صاف شفاف ہو بلکہ ایسا ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ مینگل صاحب بھی اس بات کی ضمانت دیں اور ایک بلوچ کا عہد کریں کہ لوگوں کو ان کی مرضی کی قیادت چننے کا حق دیا جائے گا اور مخالفین کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ان کے لوگوں کی بازیابی اہم ہے لیکن بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے اور بے گھر کرنے کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی یہ دو طرفہ ٹریفک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اب چار سو گرین سگنل نظر آنے چاہیئیں۔ گو کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن کتنا ہی کٹھن اور پرآشوب سفر کیوں نہ ہو وہ صرف پہلا قدم اٹھانے سے ہی کٹ سکتا ہے اور وہ قدم درست سمت ہونا چاہیے۔
شفاف الیکشن کی صورت میں خیال اغلب ہے کہ اختر مینگل صوبائی حکومت بنا لے گا۔ سابقہ حکومت کے تمام مسخرے، اٹھائی گیرے اور مخبوط الحواس تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائیں گے۔ یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ وافر فنڈ ممبروں کی جیب میں نہیں جائیں گے بلکہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوں گے لیکن ساتھ ہی مینگل، مری اور بزنجو صاحبان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ہے علیحدگی پسندوں کی حوصلہ شکنی اور انہیں واپس قومی دھارے میں لانا۔ انہیں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وزارت عُلبہ لائسنس نہیں ہے کہ من مانی کی جائے اور اپنے سابقہ ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے اس صورت میں پریشانی اور تاسف کے علاو ہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024