پٹرولیم نرخوں میں پھر ہوشربا اضافہ

نگران حکومت نے ایک بار پھر پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں بھاری اضافہ کرکے نئے نرخ لاگو کر دیئے۔ پٹرول کے نرخ میں26.02 روپے اور ڈیزل کے نرخ میں 17.34 روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے پٹرول کے نئے نرخ 331 روپے 38پیسے فی لٹر جبکہ ڈیزل کے نئے نرخ 329روپے18 پیسے فی لٹر مقرر کیے گئے ہیں۔
ماہ ستمبر کے شروع میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 14.91 روپے فی لیٹر اضافہ کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا‘ اور اب گزشتہ روز ایک بار پھر پٹرولیم نرخوں میں 26.2 روپے لٹر کا ہوشربا اضافہ کرکے نگران حکومت نے عوام کے ساتھ اپنی بے حسی کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں پندرہ دن میں 41.11 روپے فی لٹر اضافہ کچلے ہوئے عوام کو مزید کچلنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف عوام سے سیلز ٹیکس بھی لیا جا رہا ہے‘ یوٹیلٹی بلوں میں وہ ٹیکسز بھی لئے جا رہے ہیں جو ان پر واجب نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب پٹرول‘ گیس‘ بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ الگ کیا جا رہا ہے جس سے نگران حکومت کی عوام دشمن پالیسی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ آئی ایم ایف سے صرف تین ارب ڈالر لینے کی خاطر عوام کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ روزافزوں مہنگائی سے مزدور طبقہ ہی متاثر نہیں ہو رہا‘ سفید پوش طبقے کیلئے بھی اپنا بھرم قائم رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ امر سمجھ سے بالا ہے کہ جب چین‘ سعودی عرب‘ عرب امارات اور دوسرے دوست ممالک بلامشروط پاکستان کی مالی معاونت کیلئے آمادہ ہیں اور عملی طور پر اسکی معاونت کر بھی رہے ہیں تو حکومت ان دوست ممالک سے استفادہ کیوں نہیں کر رہی۔بے شک نگران سیٹ اپ آئی ایم ایف کے معاہدے کی تکمیل کیلئے ہی لایا گیا ہے مگر اپنے عوام کی سانسیں چھین کر آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ نگران حکمران جس طرح عوام پر مہنگائی کے بم برسا رہے ہیں اور انہیں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں‘ انہیں بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ مضطرب عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا تو نگران حکومت سے سنبھالا نہیں جائیگا جس سے ملک میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے اور جمہوریت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حکمرانوں کے یہ عوام دشمن اقدامات ملک کو بے رحم انقلاب کی طرف دھکیلتے نظر آرہے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیاں اسی طرح جاری رہیں اور عوامی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو انہیں عوام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔