نوازشریف کی واپسی کی تاریخ تبدیل نہیں ہوگی: مسلم لیگ (نون)

اب تو لگتا ہے میاں نوازشریف کی واپسی کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ خدا جانے گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد پارٹی اور وہ خود کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اب تو لگتا ہے ان کی استقبال کیلئے ”آجا تینوں اکھیاں اڈیک دیاں“ کہنے والے بھی کہیں کان لپیٹ کر ادھر ادھر چپ کر کہ بیٹھ نہ جائیں۔ مسلم لیگ ( نون ) کا المیہ بھی یہی ہے کہ اسے ووٹ دینے والے تو مل جاتے ہیں مگر مزاحمت کرنے والے‘ سختیاں جھیلنے والے کم ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو لوگ بھی یہ کہتے ہوئے ”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“ اکتاہٹ کا شکار ہو نے لگے ہیں۔ سیاسی حالات بھی اب بہت مختلف ہیں۔ ”میں اہم تھا‘ یہی وہم تھا“ سب کے سامنے ہے۔ بڑے بڑے سیاسی دیوتا آج کہاں ہیں۔ کوئی مکافات عمل کا شکار جیل میں چکی پیس ہے اور کوئی ملک سے باہر جلا وطن ہے۔‘ دوسرے بڑے بڑے رہنما اندرون ملک روپوش ہیں یا خاموش ہیں۔ اس صورتحال میں اب میاں جی کب آتے ہیں‘ کیسے آتے ہیں‘ کیوں آتے ہیں یا پھر آتے بھی ہیں یا نہیں‘ اس سے لوگوں کو زیادہ سروکار نہیں۔ اب وہ زمانے گئے جب لوگ اپنے قائدین پر جان چھڑکتے ہیں۔ اب تو سب اپنی اپنی جان بچانے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں۔ مگر مسلم لیگ (نون) کے رہنماﺅں کو پورا یقین ہے کہ ان کے قائد کا استقبال بھرپور ہوگا۔ پہلے دومرتبہ ان کی استقبالیہ تقریبات تو زیادہ پراثر نہ تھیں۔ اب دیکھنا ہے یہ لوگوں کوکہاں سے لائیں گے‘ جمع کریں گے۔ لوگ تو اس وقت غربت اور مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں۔ انہیں ایسے نجات دہندہ کی تلاش ہے جو انہیں اس عذاب سے نجات دلائے۔ اب ایسا رہبر دور دور تک کوئی نظر نہیں آ تا۔ اب البتہ رہزن ضرور چارس±و دکھائی دیتے ہیں۔
٭٭........٭٭
کچے کے ڈاکو ﺅں کے خلاف آپریشن کےلئے خصوصی کمانڈوز پہنچ گئے
معلوم نہیں یہ کچے کا علاقہ پاکستان میں ہے یا کسی اور دوردراز سمندری جزیرے میں جہاں چھپے بحری قذاق آتے جاتے جہازوں پر حملہ کرکے انہیں راجہ داہر کے لٹیروں کی طرح لوٹ لیتے ہیں۔اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آنے جانے والے اور لٹنے والے کسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں کہ وہ آکر انہیں بچائے۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان یہ علاقہ سرسبز و شاداب ہے کیونکہ یہ دریائی بیٹ ہے۔ مگر یہاں فصلوں کی بجائے ڈاکوﺅں‘ بھتہ خوروں اور مفرور مجرموں کی فصل تیار ہوتی ہے جو یہاں کی زمینی اور آبی راستوں پر قابض ہیں۔ دونوں صوبوں کی پولیس ان کے آگے عاجز آچکی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے بڑے بڑے بااثر حلقے ان مجرموں اور ڈاکوﺅں کی سرپرستی کرکے اپنے علاقے میں دھاک جمائے رکھتے ہیں اس لئے کسی پولیس والے میں ہمت نہیں کہ یہاں آکر ان پر ہاتھ ڈالے۔ یہ تو اب تک ہو رہا ہے۔ کچے کے مسلح ڈاکو اور مفررو مجرم کھلم کھلا دندناتے پھرتے ہیں۔ انتظامیہ بے بس ہے کہ اوپر والے کچھ کرنے نہیں دیتے۔
کچھ عرصہ سے ہزاروں سندھ اور پنجاب پولیس کے اہلکار یہاں آپریشن کررہے ہیں مگر صرف چند ایک ڈاکو مارے جا سکے۔ چند ایک پکڑے گئے۔ یہ غالباً وہ ہونگے جو ناکارہ ہیں۔ یعنی چلے ہوئے کارتوس۔ ڈاکوﺅں نے چار سو اندھیر نگری مچا رکھی ہے آخر اتنا بڑا آپریشن ہونے کے باوجود یہ کہاں چھپ جاتے ہیں۔ اچھا ہے کہ پولیس اور سپیشل کمانڈوز ذرا بڑی بڑی حویلیوں‘ ڈیروں اور خفیہ پناہ گاہوں پر بھی چھاپے مارے۔ شرفا ءکے ذاتی گن مینوں کا بھی ریکارڈ چیک کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ذاتی ملازمین نہیں سب ڈاکو‘ چور ا±چکے‘ بھتہ خور اور قاتل و مفررو ہیں۔ راستہ ایک ہی ہے۔ بوڑھوں‘ عورتوں اور بچوں کو مقررہ وقت دیکر حفاظتی تحویل میں لیں۔ اس کے بعد پورے علاقہ میں بےرحمانہ آپریشن کریں۔ دریائی اور زمینی کے علاوہ فضائی آپریشن کرکے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔
٭٭........٭٭
چھاپوں کے خلاف تھوک مارکیٹوں والوں کا ہڑتال کا اعلان
یہ غنڈہ گردی اور دھونس ہمارے مزاج میں رچ بس گیا ہے۔ ٹیکس چوری ہم کریں‘ ذخیرہ اندوزی ہم کریں‘ زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں لوٹ مار ہم کریں۔ بجلی اور گیس کی چوری میں بھی ہم پہلے نمبر پر ہوں۔ جب عوام کی آہیں آسمان تک جا پہنچیں اور کوئی حکومت اس ظلم کے خلاف ایکشن لے تو ہم فوراً معصوم بن کر واویلا کرتے ہیں۔ اب کچھ دنوں سے سرکاری ادارے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔ گوداموں‘ خفیہ اڈوں میں چھپائی لاکھوں ٹن چینی‘ آٹا اور کھاد ہی نہیں‘ دیگرضروریات زندگی برآمد کر رہے ہے۔ اس پر ہماری فرشتہ صورت تاجر برادری تلملا اٹھی ہے‘ اور ان چھاپوں کے خلاف ہڑتال کرکے حکومت کو بلیک میل کر رہی ہے۔ چند روز میں بھاری مقدار میں چھپائے گئے خوردنوش کی بھاری مقدار قبضہ میں لی گئی تو قیامت آ گئی۔ اب حکومت کو چاہئے کہ وہ یہ ضبط شدہ یا پکڑا گیا سامان شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں جہاں سے برآمد ہوا‘ وہاں تھوک ریٹ پر فروخت کرے اور حاصل شدہ رقم خزانے میں جمع کرائے۔ کسی قانون کے تحت یہ منافع خورمافیا آٹا‘ دال‘ چاول‘ چینی اور کھاد ذخیرہ کرکے منڈی میں‘ مارکیٹ میں طلب و رسد کا بحران پیدا کرتا ہے اور بعدازاں بھاری منافع پر یہ چیز مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔ آٹا، چینی غریب کی پہنچ سے باہر ہو چکے۔ کیا بجلی‘ پٹرول اور گیس کم تھے غریبوں کی کمرتوڑنے کیلئے کہ اب یہ نیا مہنگائی کا تازیانہ ان پر برسایا جا رہا ہے۔ حکومت اب رعایت نہ کرے۔ افغانستان بارڈر پر سختی کرے۔ سمگلنگ‘ بند ہوگی تو لاکھوں ٹن آٹا‘ چاول‘ چینی‘ گھی وافر مقدار میں دستیاب ہونے سے ان کی قیمتیں کنٹرول میں آئیں گی۔ ابھی تو شکر کریں حکومتی ادارے گوداموں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ اگر بھوکی ننگی خلق خدا ان گوداموں پر ٹوٹ پڑی تو پھر کیا ہوگا۔ اس کا بھی سب کو اندازہ ہونا چاہئے۔
٭٭........٭٭
پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا سے واپس وطن پہنچ گئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
نجانے یہ بہت زیادہ خوداعتمادی کا شاخسانہ ہے یا جوئے بازی‘ میچ فکسنگ کا کمال کہ دنیا کی نمبر ون ٹیم نہایت آرام سے اہم ترین میچ ہار کر ایشیا کپ کے مقابلوں سے باہر ہوگئی۔ آخر کیا وجہ ہے‘ کیا کھلاڑی کھیلنا بھول لگئے تھے یا انہیں اس پر آمادہ کیا گیا کہ وہ ناقص کارکردگی دکھائیں اور بدترین کھیل پیش کریں۔ اب اس ہار پر کرکٹ شائقین ہی نہیں‘ عوام کا غصہ بھی بجا ہے۔ عوام اپنے ان کھلاڑیوں کو ہیرو بنا کر اپنے دل و دماغ میں بسائے رکھتے ہیں۔ مگر یہاں یہ معاملہ بھی الٹ ہے۔ یہ لوگ اپنے چاہنے والوں کے جذبات کا خون کرنے سے باز نہیں آتے اور انہیں صدمے سے دوچار کرتے ہیں۔ اب نگران حکومت ذرا پی سی بی کی کھنچائی کرے۔ یعنی منجھی تلے ڈانگ پھیرے یا جھاڑو دیکر صفائی کرے۔ وہاں سے کافی گند برآمد ہوگا۔ لاکھوں روپے تنخواہیں اور اس سے بھی زیادہ کیمراعایتیں لینے والے یہ کھلاڑی ہوں یا آفیشلز ان سب کو ٹھونک بجا بجا کر دیکھا جائے ۔ ناکارہ کل پرزوں سے جان چھڑائی جائے۔ نئے ٹیلنٹ کو اور تجربہ کار عملے کو لایا جائے۔ گزشتہ روز یہ کھلاڑی جس طرح منہ چھپائے بنا اطلاع کے وطن واپس آئے‘ اگر اس کی بھنک بھی شائقین کو ان کے چاہنے والوں کو ہوتی تو وہ گلے سڑے ٹماٹر‘ انڈے اور پھٹے پرانے پاپوش لیکر ان کے استقبال کیلئے جوق در جوق آتے‘ مگر افسوس اس عظیم الشان استقبال کا موقع ان کھلاڑیوں نے کھو دیا۔ اب تو گلی محل۔ میں بھی نکلتے ہوئے‘ بازار جاتے ہوئے یہ ٹوپی والا برقعہ پہن کر نکلیں گے کہ کہیں عشاق کا مجمع نہ پیچھے پڑ جائے اور ان کیلئے جان چھڑانا مشکل ہوگا۔ دکھ ہوتا ہے لوگوں کو اپنی ٹیم کی ایسی درگت بنتا دیکھ کر جو وہ دیکھنا نہیں چاہتے۔