
بجلیاں گر چکی ہیں، دماغ الٹ چکے ہیں، سارے حساب غلط ہو چکے ہیں، تمام اندازے غلط ثابت ہو چکے ہیں، سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کر دیا۔ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں چھبیس روپے دو پیسے فی لٹر جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں سترہ روپے چونتیس پیسے فی لٹر اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت تین سو اکتیس روپے اڑتیس پیسے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی نئی قیمت تین سو انتیس روپے اٹھارہ پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے شہریوں کے لیے ہر دن ایک نئی اذیت کا باعث ہے۔ حکومت زندگی کی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں تو اضافہ کیے جا رہی ہے لیکن آمدن کے ذرائع کیسے بڑھائے جائیں گے اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ عام آدمی کی زندگی پہلے ہی بہت مشکل تھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے کے بعد مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایک عام آدمی جو موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے اگر وہ روزانہ ایک لیٹر پیٹرول استعمال کرتا ہے تو اس دس ہزار سے زائد کی ضرورت پیش آئے گی۔ موٹر سائیکل کی مرمت اور دیگر اخراجات الگ ہیں۔ ایک لیٹر پیٹرول کم تر ہے اگر کوئی دو لیٹر پیٹرول استعمال کرتا ہے تو پھر اس کی ساری تنخواہ پیٹرول کے پیسے ادا کرتے اور بجلی کا بل جمع کرواتے ہی پوری ہو جائے گی۔ کیونکہ ملک میں تنخواہوں کا بھی کوئی حال نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت آمدن کے اعتبار سے کم تر سطح پر ہے۔ بہت بڑی تعداد بیس پچیس اور چالیس ہزار کے درمیان ماہانہ کماتے ہیں۔ یومیہ اجرت والے الگ مشکلات سے گذر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سفری سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں شہر بڑے تو ہوتے گئے لیکن کسی بھی حکمت عملی کے بغیر پھیلتے ہوئے شہروں کی وجہ سے کام کاج کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ باامر مجبوری ذاتی سواری استعمال کرنا پڑتی ہے۔ قیمتیں بڑھانے والوں کو یہ علم نہیں کہ آج سائیکل پر سفر کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اگر کوئی شخص دفتر یا کسی بھی جگہ کام پر جانے کے لیے پچاس کلو میٹر روزانہ سفر کرتا ہے تو کیا سائیکل پر اتنا سفر ممکن ہے لیکن کسی کو پروا نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بنیادی ضرورت کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بڑھتی چلی جائے گی سردیوں میں گیس بھی بجلی کی قیمت میں ملے گی۔ اب تو یہی ہو سکتا ہے کہ فاقے کریں اور صرف بجلی، گیس، پانی کے بل ادا کریں یا پھر پیٹرول بھروائیں اور سڑکوں پر دھکے کھاتے رہیں۔ لوگوں کو ذہنی مریض بنانے کا یہ اچھا نسخہ ہے۔ اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر روایتی انداز میں الزام تراشی کریں گی ایک دوسرے کو الزام دیں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقہ ملا ہوا ہے۔ اسے مصیبت میں گھرے پاکستانیوں کی کوئی فکر نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں شاید پیٹرول اتنا مہنگا ہو گا۔ کیونکہ اب تو ایک ڈالر میں بھی ایک لیٹر نہیں ملتا۔ خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ پیٹرول پر ساٹھ روپے اور ڈیزل پر پچاس روپے لیوی عائد کرنے کی شرط پوری کر دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں موٹر سپرٹ پیٹرول پر اس کی انٹرنیشنل قیمت کے اوپر ساٹھ روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) لگانا تھی جو سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کے دور میں قسط وار بڑھائی جاتی رہی جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی پچاس روپے لیٹر لگانے کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔ پندرہ اور سولہ ستمبر کی درمیانی رات اس پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر باسٹھ روپے لیٹر اور پٹرول پر ساٹھ روپے لیٹر پی ڈی ایل لگ چکی ہے، اب آئندہ مہینوں میں وزارت خزانہ پیٹرول اور ڈیزل پر پی ڈی ایل نہیں لگایا کرے گی۔ جن لوگوں نے آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ کیا تھا وہ حکومت میں تھے ان کا خرچہ تو ریاست برداشت کرتی ہے۔ جہاں عام آدمی کے پاس ایک لیٹر پیٹرول کے لیے پیسے نہیں ہیں وہاں سرکاری افسران کو مفت پیٹرول ملتا ہے۔ ایران سے پیٹرول کی سمگلنگ ہوتی ہے۔ مالدار مالدار ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ تفریق ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ بازار جائیں سبزیاں اور پھل پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ ادویات کی قلت بھی ہے۔ عدم دستیابی کا سامنا بھی ہے اور مہنگی ادویات میں کی وجہ سے اچھے بھلے انسان بےبس ہو چکے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ کوئی لندن میں ہے، کوئی پیرس میں ہے، کوئی جیل میں دیسی چکن کھا رہا ہے اور کہیں صدر پاکستان کو اپنی تنخواہ کی فکر لاحق ہے۔ اگر کوئی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے تو وہ اس ملک کا عام آدمی ہے، سفید پوش ہے، لوگ تعلیم کیسے حاصل کریں گے، اگر کسی نے اعلی تعلیم کے لیے باہر جانا ہے تو کیسے جائے گا۔ یہ وہ حالات ہیں کہ حکومت لوگوں کو غلط کاموں کی ترغیب دے رہی ہے۔ جب جائز طریقے سے ضروریات پوری نہیں ہوں گی تو لوگ ناجائز ذرائع کی طرف بڑھیں گے کرپشن ختم کرتے کرتے ہم ہر شخص کو کرپشن کی طرف لگا رہے ہیں۔ بہرحال ہم ایک اور مشکل دور سے گذر رہے ہیں دعا ہے کہ مشکلات کا خاتمہ ہو اور ان مشکلات کی وجہ بننے والوں کو اللہ ہدایت دے اور اگر ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے تو انہیں نیست و نابود کر دے۔ چند مفاد پرستوں کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی وسیم مختار کہتے ہیں کہ "حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں کچھ تلخ فیصلے کرنے ہوں گے۔ بجلی کی قیمتوں کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے بجلی چوری کو روکنا ہوگا جو بجلی چوری کر رہا ہے اس کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ توانائی کے شعبے میں فری مارکیٹ لارہے ہیں، صارف کا جس کمپنی سے بجلی خریدنے کا ارادہ ہو وہ خریدے۔" چیئرمین نیپرا نے کمال بات کی ہے۔ بجلی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور بجلی کے بل تو ہر ماہ عام آدمی پر بجلیاں گراتے ہیں اور بجلی کے جھٹکے ایسی شدت کے ساتھ ہوتے ہیں کہ سنبھلتے سنبھلتے مہینہ لگ جاتا ہے سنبھلتے ہی ایک نیا بل آتا ہے اور پھر بےہوشی طاری ہوتی ہے۔ عام آدمی کی تو یہ حالت ان سخت فیصلوں کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔ اب تو درست فیصلوں کا وقت ہے۔ مطلب کمال ہے آپکے لیے بجلی چوری رکنا مشکل ہے لیکن بجلی کی قیمتیں بڑھانا بہت آسان ہے۔ کون ہے جس نے راستہ روکا ہوا ہے اور ہاتھ بندھے ہوئے ہیں درست فیصلوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کو بھی سامنے لایا جائے۔ سخت اور مشکل فیصلے ہو چکے ہیں۔ اب تو بجلی چوروں کو پکڑنا ہے۔ جس عزم کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ بجلی چوروں کو بھی پکڑیں۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے