خالی پلاٹ
عمومی طور پر ہماری گلیوں میں جو خالی پلاٹ ہوتا ہے لوگ اس میں کوڑا کرکٹ پھینکنا شروع ہوجاتے ہیں جو بعد ازاں روڑی کی شکل اختیار کر جاتا ہے جہاں سے بدبو دھواں اٹھتا رہتا ہے جسکا پلاٹ ہوتا ہے یا وہ کچھ عرصہ بعد صفائی کرواتا ہے یا پڑوسی بلدیہ کے ذریعے صاف کرواتے ہیں یعنی اس پلاٹ کیساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ آگے فروخت نہ ہوجائے وہ بھی اس صورت میں کہ نیا خریدار اس پر عمارت تعمیر نہ کرلے بصورتِ دیگر صورتحال جوں کی توں ہی رہتی ہے ۔ایسے ہی پوری دنیا نے طے کرلیا ہے کہ جو ملک بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا اور ریاست کی تعریف پر پورا نہیں اترتا وہ اس دنیا کے نقشے پر خالی پلاٹ ہی سمجھا جائیگا بدقسمتی سے افغانستان بھی صدیوں سے دنیا کے لیے خالی پلاٹ کا درجہ رکھتا ہے ۔اس ملک کی تاریخ بڑی تلخ ہے ڈھائی ہزار سال قبل ایرانی بادشاہت کروش اعظم سے لیکر موجودہ طالبان تک یہاں کشت و خون کا بازار ہی گرم رہا ۔ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کب اور کیوں اس سے متاثر ہونا شروع ہوا ۔ اسکی ابتدا کیمونسٹوں کی افغانستان کیطرف پیشقدمی سے ہوئی پہلے ہم فریق کا درجہ نہیں رکھتے تھے مگر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں سے ہم نے فریق بننے کا فیصلہ کیا قوم کو کیمونسٹوں کے توسیع پسندانہ عزائم سے ڈرایا گیا کہ انکی منزل موجودہ گوادر ہے ۔دراصل یہ دو عالمی طاقتوں کی جنگ تھی امریکہ اور دوسری اتحادی طاقتوں نے اسے مزہب کا رنگ دیا واشنگٹن چونکہ چومکھی لڑائی لڑرہا تھا کیمونسٹوں ہی کے چند جرنیلوں اور لیڈران کو اکسا کر افغانستان بھیجا جارہا تھا اور دوسری طرف ہمیں ڈرایا جارہا تھا کہ یہ ترقی پسند نہیں دنیا سے مزہب کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں ۔وہ دن اور آج کا دن ہم باقاعدہ فریق ہیں اور آج حالت یہ ہکہ جب عالمی طاقتیں افغانستان کی تعمیروترقی کے فیصلے کررہی ہیں تو پوچھا تک نہیں جارہا حتیٰ کہ بتایا بھی نہیں جارہا ابھی کچھ ہی عرصہ قبل واشنگٹن میں ٹرمپ اور ہمارے وزیراعظم صاحب کی پریس کانفرنس دیکھ لیں کیسے ذکر ہورہا تھا افغانستان کا ہم سے ایسے پوچھا جارہا تھا کہ جیسے یہ مسلہء صرف ہم ہی حل کرسکتے ہیں اور ہم تھے کہ پھولے نہیں سما رہے تھے ایسا کوئی پہلی دفعہ ہوا ہے اور ہم ہیں کہ پھر شکار ہوجاتے ہیں ۔ وہ تو لاکھ شکر کہ ہمارا ازلی دوست چائنہ درمیان میں آگیا اس نے محسوس کیا کہ انڈیا کچھ ذیادہ ہی ڈرامے کررہا ہے۔ چائینیز کاروباری لوگ ہیں جنکی اپنی خودمختار پالیسیاں ہیں طالبان کو انہوں نے جنگ کی بجائے کاروبار کا مشورہ دیا کہ اب بس کردیں دنیا کیساتھ چلیں معیشت ہی سب سے بڑی جنگ ہے اور مودی وغیرہ کو فارغ کریں ہم آپکو دوکان کھولنے کے لیے مال دیتے ہیں آپ بھی کمائیں اور ہم بھی اسلحے سے جان چھڑوائیں یہ ایک ملک ہے جنگوں کا ٹریننگ کیمپ نہیں آجتک کون جیتا ہے یہاں اگر جیتا بھی تو کتنا عرصہ رہا اور بظاہر آج کے دن تک طالبان کے رویے سے لگ بھی رہا ہے گو عالمی طاقتوروں کو ایسا ہضم نہیں ہوگا ۔اور ایسا چائنہ ہمیں بھی تو کہہ رہا ہے بلکہ کافی کچھ ہم پر لگا بھی رہا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان کا نقشہ غور سے دیکھیں اور اپنی حدود کا تعین کریں کہ ہماری حد خیبر سے کراچی تک ہے ہمیں اسکی فکر ہونی چاہیے ہم ایسے خوابوں سے باہر آئیں کہ پوری دنیا کے فیصلے پاکستان کرے گا ۔کیا ہم اپنے فیصلے خود کررہے ہیں ۔آج کے دن تک ہم بہت کچھ دیکھ بھی چکے ہپں اور بھگت بھی چکے ہیں کیا یہ کافی نہیں ۔ہم پر ثابت ہوا ہے کہ ہمارے ہر معاملے میں ہر ملک نے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور ہم وہی جزباتی خدا کے بندو دنیا بدل گئی ہے ایک طرف ہم اپنے بچوں کو الف انار ب بکری پڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف انکے ہاتھوں میں پکڑا ہوا موبائل کچھ اور ہی بتا نہیں دکھا رہا ہے جدت سے نفرت ہمیں کہاں سے کہاں لے گئی کرونا وبا اور ویکسینیشن نے متعلق ہمارے فرمودات پوری دنیا کی تفریح کا سامان بنے ہوئے ہیں ۔ وہی کیمونسٹ اس دور میں خلا کیطرف جارہے تھے اور ہمارے ہاں تھریشر کی گندم کو حرام کرار دیا جارہا تھا اور عجیب و غریب فقہی مسائل پر مباحث ہورہے تھے ۔ آج بھی دوسروں کے ماضی کی فتوحات کی مثالیں دی جاتی ہیں ہماری کوئی تاریخ نہیں ہجرت کے دوران دی گئیں قربانیاں اور آذادی حاصل کرنے کی کاوشیں ہمارا ماضی نہیں ہے ہم اندر سے اس لیے کھوکھلے ہیں کہ ہمیں خود اپنے آپ پر یقین نہیں ہماری کمزوریاں ہیں جن سے اغیار ہی فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس سارے ہیرو امپورٹڈ ہیں ۔اچھی امید رکھنی چاہیٔے اب یہ خالی پلاٹ نہیں رہے گا ۔آسی کی دہائی والی صورتحال نہیں ہوگی ہو بھی تو ہمیں کیا ہم اپنی چآردیواری کے اندر ہیں لداخ میں چائینیز نے بڑے اچھے طریقے سے انڈیا کو سمجھایا کہ ہماری حدود کے ایک انچ پر بھی تم ڈرامہ نہیں کرسکتے وہ شٹ اپ کال کے عآدی نہیں ہیں ۔بھلے آج ہماری معیشت کمزور ہے مگر ہمارا دفاع مضبوط ہے دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہمارے پاس ہیں کسی کو سمجھ نہیں آرہی تو ہم سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ہم افغانستان کی خوشحالی کے خواہاں ہیں اسے ایک کامیاب ریاست بننا چاہیٔے ۔