پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، مہنگائی کا نیا طوفان
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر جاپہنچی ہیں، پٹرول پانچ روپے، ڈیزل پانچ روپے ایک پیسہ جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں پانچ روپے چھیالیس پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول 123.30 روپے، ڈیزل120.4 ، مٹی کا تیل 96.26 جبکہ لائٹ ڈیزل 90.69روپے لٹر ہوگیا ہے۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پھر اپنے روایتی سیاسی عزم کو دہرایا ہے کہ ’’عوام کو ریلیف دینے اور پرائس کنٹرول کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔‘‘ یہی بات وزیراعظم سمیت ہر حکومتی عہدیدار کررہا ہے لیکن اسے عوام کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ریلیف دینے، اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا ہر حکومتی اقدام الٹا پڑتا جارہا ہے۔ اشیاء کے نرخ ہر روز کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں اور بعض اشیاء تو ایسی ہیں کہ کسی ایک کی قیمت بڑھنے سے باقی تمام کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ جیسے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو زراعت اور صنعت و تجارت سے ٹرانسپورٹ سمیت استعمال کی ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے پھر اس کے بعد حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے جتنے بھی دعوے کئے جائیں وہ نقش برآب ہی ثابت ہوں گے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے عوام کو ریلیف دینے کی باتیں ہوا میں قلعے تعمیر کرنے کے ہی مترادف ہیں۔ ’’اوگرا‘‘ (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) نے پٹرول ایک روپے لٹر مہنگا کرنے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت نے تو عوام پر ظلم کی انتہا ہی کردی جس کے اثرات ہر چیز پر پڑیں گے۔ پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھیں گے، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ صنعتی اور کاروباری لاگت بھی بڑھ جائے گی۔ اسی طرح ڈالر کی قیمت بھی اوپن مارکیٹ میں 169.60 روپے رہی جبکہ 900 روپے اضافے کے بعد ایک تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 13 ہزار 600 روپے ہوگئی۔ ایسی صورتحال میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا ڈھنڈورہ پیٹنے ، ملکی و قومی معیشت کے مستحکم ہونے اور عام آدمی کی زندگی بدلنے کے دعوئوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، مہنگائی کے اس نئے اور خوفناک طوفان میں عام آدمی کا جان بچانا بھی مشکل ہوکر رہ گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے لوگ کہیں جرائم کا راستہ نہ اختیار کرلیںیا پھر خودکشیوں کو ترجیح دینے لگیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ جائے کہ لوگ کرونا سے تو بچ جائیں گے لیکن بھوک سے مرجائیں گے۔ اس لئے حکومت اتنی مہنگائی نہ کرے کہ عام آدمی کیلئے جینا دشوار ہوجائے ،عوام کو ریلیف دینے کیلئے دعوئوں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔