الیکٹرانک ووٹنگ مشین قانون سازی ہی بہترین حل ہے
انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر حکومت اور اپوزیشن میں سرد جنگ جاری ہے ، حکومت آئندہ عام انتخابات ہر صورت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن اس کو مسترد کرکے ناکام قرار دلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ درخواست بھی دائر کی گئی جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین صفحات پر مشتمل فیصلہ صادر کیا کہ ’’الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی ضروری ہے ، عدالت کو کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتے ہوئے تمام خدشات کا جائزہ لے گی اور جو بھی فیصلہ کرے گی وہ عوام کے مفاد میں ہو گا،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خلاف درخواست قبل از وقت خدشات پر مبنی ہے ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے۔ٖٖ ‘‘
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کی مشکلات حل کر دی ہیں ، حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر لفظی جنگ کی بجائے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جایا جائے جہاں آراء و تجاویز کے بعد قانون سازی کے ذریعے اس کو حل کیا جائے۔ حکومتی عہدیداروں اور اپوزیشن رہنمائوں کو بھی چاہئے کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے اپنی تجاویز پارلیمنٹ میں لائیں ، جن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات و خدشات ہیں وہ بھی پیش کریں ، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر انتخابی اصلاحات کو ضد اور انا کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے اگر کسی سیاسی پارٹی کے تحفظات ہیں یا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے خدشات ہیں تو اس کے ازالہ کے لیے پارلیمنٹ ہی مناسب فورم ہے۔ یہ سارے معاملات وہیں حل ہونے چاہئیں۔ فاضل عدالت عالیہ اسلام آباد نے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مسئلے کا حل اور مناسب فورم بتا دیا ہے اب سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی پارٹیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نازک مرحلے میں فہم و فراست کا مظاہرہ کریں۔ ایسے معاملات کو سلجھانے کا بہترین فورم بہرصورت پارلیمنٹ ہی ہے۔