جمعۃ المبارک‘ 9؍ صفر‘ 1443ھ‘ 17؍ ستمبر2021ء
ہمیں طعنہ دینے والے خود عدم اعتماد لے آئیں۔ فضل الرحمن
بلاول بہت دنوں سے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ خاص طور پر شہباز شریف اور فضل الرحمن تو ان کا خاص ٹارگٹ تھے۔ موصوف شاید یہ بھول رہے تھے کہ اتنی ان کی عمر نہیں جتنا ان دونوں کا سیاسی تجربہ ہے۔ پیپلز پارٹی والوں کے اس ناروا سلوک کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی والے بھی جوابی بیان داغتے رہے مگر وہ ’’بات کہاں مولوی مدن‘‘ جیسی شاید اسی کمزور ردعمل کے جواب میں بلاول زرداری کے حوصلہ بلند ہوتے رہے اور وہ پے درپے کارپٹ بمباری کر کے پاکستانی سیاست کے ان ’’ٹوئن ٹاورز‘‘کو زمین بوس کرنے میں کوشاں رہے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اب کی بار فضل الرحمن کی برداشت جواب دے گئی تو انہوں نے پہلی بار کھل کر ذرا سخت تیور دکھائے اور کہا کہ اگر ان کی رائے بڑی عقل مندی والی ہے تو انتظار کاہے کا۔ دوسروں کو طعنے دینے کی بجائے بلاول کی پارٹی خود تحریک عدم اعتماد کیوں نہیں لاتی، انہیں کس نے روکا ہے؟ وہ آرام کیوں فرما رہے ہیں؟ مولانا کی بات میں بڑا وزن ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہے وہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائے ۔ یوں ہی
کہیں پہ نگاہیں کہیں یہ نشانہ
جینے دو ظالم بنائو نہ دیوانہ
والی صورتحال سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جو خود کچھ نہ کر سکے اسے دوسروں پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭
10 ہزار اشتہاریوں کے شناختی کارڈ اور موبائل سمیں بلاک کرنے کا فیصلہ
اگر اس طرح جرائم کنٹرول میں آسکتے ہیں تو پھر یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا پولیس کی اہم ذمہ داری ہے۔ اب لاہور پولیس کی طرف سے نادرا کو خط لکھ دیا گیا۔ دیکھتے ہیں وہ کب تک اس کا جواب دیتے ہیں۔ شناختی کارڈ اور موبائل سم ایک ایسا جادو ہے جس کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی بند ہوجاتے تو سمجھ لیں
پھس گئی جان شکنجے اندر
جیوں بیلن وچ گنا
یعنی جان ایسے شکنجے میں پھنستی ہے جیسے رس نکالنے والے بیلنے میں گنا پھنستا ہے۔ عوام تو ہر اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کو قابو میں کرنے کیلئے ہو۔جیلوں میں تو شاید ہی کسی اور قیدی کو رکھنے کی گنجائش ہو وہاں تو پہلے ہی تل دھرنے کو جگہ نہیں ۔ ایک کی جگہ چار بندے رکھے ہوتے ہیں۔ اب موبائل سم اور شناختی کارڈ بلاک ہونے سے یہ لوگ اپنے گھر اور معاشرے میں ہی قید ہوکررہ جائیں گے۔ ان کیلئے کچھ کرنا پہلے جیسے آسان نہیں رہے گا۔ ہاں ان کے سہولت کار البتہ ان کو اپنے نام کی سم لے کر دیں اپنے شناختی کارڈ کی سہولت فراہم کریں تو الگ بات ہے۔ اس لئے پولیس اس جانب بھی توجہ دے اور ان لوگوں کے سرپرستوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے جو ان اشتہاریوں کے ساتھ کرنے والی ہے تو شاید حالات بہتر ہونے میں مدد ملے۔
٭٭٭٭
اسلام کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: اسلامی نظریاتی کونسل۔ افغان خواتین فٹبالرز لاہور پہنچ گئیں
کھیلیں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ چاق و چوبند اورصحت مند معاشرہ وہی ہوتا ہے جس کے نوجوانوں کھیل کود میں حصہ لیتے ہوں۔ کھیلوں کے میدان آباد ہوںتو اس طرح منفی سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا اور مثبت سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ ویسے بھی معاشرے کو منشیات، منفی سرگرمیوں اور بری عادت سے بچانے کے لیے کھیلوں کو فروغ دینا اور کھیلوں کے میدان آباد کرنا ضروری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اسلام کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ بے شک اسلام میں کسی بھی صحت مند سرگرمی کی ممانعت نہیں۔ تیراکی ، کشتی رانی ، تیراندازی ، پہلوانی ، ہاکی ، فٹ بال ، نیزہ بازی ، کرکٹ ، دوڑ یہ سب اچھے کھیل ہیں۔ رہی بات خواتین کی تو اگر حدود و قیود کی پابندی برقرار رکھی جائے تو وہ بھی کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہیں اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں لے بھی رہی ہیں۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے خواتین کے کھیلوں پر پابندی کے بعد وہاں کی خواتین فٹبالرز نے پاکستانی ویزے کی درخواست کی تو حکومت پاکستان نے انسانی ہمدردی ہمدردی کے تحت انہیں ویزے جاری کر دئیے جس کے بعد یہ خواتین فٹبالرز کی ٹیم ان کے اہلخانہ اور کوچ گزشتہ روز لاہور پہنچ گئے۔ جہاں چند روز یا کچھ عرصہ عارضی قیام کے بعد یہ سب کسی یورپی ملک روانہ ہو جائیں گے۔ جو آج کل افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں فٹبال اور کشتی کے مقابلے مقبول ترین کھیل ہیں۔ امید ہے یہ خواتین وہاں بھی اس کھیل میں اپنی مہارت منوائیں گی اور آگے بڑھیں گے۔
٭٭٭٭
ہسپتالوں، تفریح گاہوں، پارکنگ اور پارکوں میں غنڈہ گردی
جی ہاں یہ کوئی مذاق نہیں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ میوہسپتال میں ہونے والے واقعات کی ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو شاید روز پیش آنے والے ایسے واقعات طشت ازبام نہ ہوتے۔ صرف میوہسپتال ہی نہیں اور بھی ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر یہ غنڈے کیا کچھ کرتے ہیں۔ اس کا اگر ڈیٹا مرتب کیا جائے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ شریف لوگ ان غنڈوں سے مار کھانے، جیبیں خالی کرانے کے بعد صرف آنسو ہی بہاتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔کسی کو چور، کسی کو پریمی جوڑا ، کسی کو وارداتیا بنا کر یہ بدمعاش مافیاز روزانہ درجنوں افراد کو لوٹتے اور بے عزت کرتے ہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا تفریح گاہیں، پارک ہوںیا ہوٹل وہاں کی انتظامیہ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ بدمعاش قسم کے لوگ رکھ کر ان کے ذریعے عام لوگوں کو ہراساں کریں، تنگ کریں، ان کی بے عزتی کریں اور ان کے پیسے لوٹ لیں۔ اگر کسی حوالے سے کوئی شکایت نظر آتی ہے تو یہ ادارے بدمعاشوں کی بجائے قانون کی مدد حاصل کریں۔ گمراہ اور غلط عناصر کو سختی سے وارننگ دیں یا پولیس کے سپرد کریں۔ کسی کو مارنے یا اس کی تذلیل کرنے کی اجازت کسی پرائیویٹ ادارے کو نہیں دی جاسکتی، نہ سرکاری ادارے کے ملازمین کو اس کا حق ہے۔ اگر ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی تو ان کی وارداتیں بڑھتی جائیں گی اور شریف شہریوں کے لئے کہیں بھی جانا ممکن نہیں رہے گا۔ جو لوگ یا ادارے ایسے عناصر کو پالتے اور استعمال کرتے ہیں ان کو اس غنڈہ گردی سے روکنا ہوگا۔