وزیراعظم ڈاکٹر کامران افضل سے کیا چاہتے ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ حکومت کے چوتھے سال کو انتخابات کی تیاری کا سال بھی کہا جاتا ہے، اسی سال میں حکومت نے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہوتی ہیں، ترقیاتی کام کروانا ہوتے ہیں، لوگوں کو نوکریاں دینا ہوتی ہیں، قرضے جاری کئے جاتے ہیں، یہ تمام کام اس وجہ سے کروائے جاتے ہیں کہ اپنے ناراض ساتھیوں کو راضی کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے علاوہ عوام کو خوش کیا جا سکے تاکہ ووٹ بھی پکے ہوں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جن حالات میں اقتدار ملا وہ انتہائی مشکل تھے پھر کرونا وبا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ خراب معاشی حالات کے باعث مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا جس سے عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی مشکل نظر آ رہا تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو وزیراعظم کی طرف سے یہ ٹاسک ملا ہے کہ مہنگائی کو ہر صورت کنٹرول کیا جائے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں استحکام اور انکی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم کے اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کیلئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کئی سخت اقدامات کئے ہیں۔ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ناجائز منافع خور ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس منافع خور مافیا کے ہاتھ روکنے اور عوام کو انکے چنگل سے نجات دلانے کیلئے وزیراعلیٰ کو اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو معیشت و تجارت کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو جو اس مافیا کے فرار کے سارے راستے بند کرنے کا ہنر جانتا ہو اور ان طاقتور لوگوں کے دبائو میں آئے بغیر میرٹ پر ایکشن لینے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ یہی سب کچھ سوچ کر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی نظریں گریڈ 22 کے افسر ڈاکٹر کامران علی افضل پر پڑیں کہ کیوں نہ انہیں چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کر دیا جائے، ڈاکٹر کامران علی افضل نے آسٹریلیا سے اقتصادی امور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے ۔وہ پہلے پی ایچ ڈی ہیں جنہیں پنجاب میں چیف سیکرٹری تعینات کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر کامران علی افضل اس سے پہلے بھی پنجاب میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات اور خزانہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔انکے اجداد قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل شرقپور میں سیٹل ہوئے اور زمینداری شروع کی انکے والد ایک استاد تھے جنہیں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے سربراہ تھے ایک استاد باپ کی تربیت ڈاکٹر کامران علی افضل کے ہر فیصلے اور اقدام سے جھلکتی ہے۔ انہوں نے ایچی سن کالج سے اے لیول میں ٹاپ کیا تھا، خالد شیر دل (مرحوم) مجتبیٰ پراچہ اور شہریار سلطان جیسی شخصیات ان کی کلاس فیلوز تھیں جبکہ سیکرٹری ایری گیشن کیپٹن (ر) سیف انجم، چیئرمین سی آئی پی ٹی اظفر منظور اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ علی مرتضیٰ انکے بیچ میٹس ہیں۔ ڈاکٹر کامران علی افضل وفاق میں خزانہ و اقتصادی امور کی اہم ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے اپنے تجربے قابلیت اور اقتصادی امور میں مہارت کے باعث وہ وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے مذاکرات کے دوران وزیراعظم انکے مشوروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے رہے ہیںانہیں پنجاب میں بیوروکریسی کی کمان دینے کے ساتھ انہیں مہنگائی کنٹرول کرنے کا خصوصی ٹاسک بھی سونپا گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر کامران علی افضل اپنے تجربے، لگن، محنت، دیانتداری اور زبردست قوت فیصلہ سے دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ڈاکٹر کامران علی افضل کو اپنے ہم مزاج ٹیم کی ضرورت ہو گی، جو انکے اشارے کو سمجھ سکے جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو جس کے دروازے سائلین کیلئے کبھی بند نہ ہوں۔ ڈاکٹر کامران علی افضل کسی بھی دبائو میں آئے بغیر میرٹ پر تعیناتیاں کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ آج ہر شعبے میں مافیاز بن چکے ہیں جو اپنے مفادات کے تحفظ اور لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے دھونس، دھاندلی، لالچ، سیاسی دبائو اور دھمکیوں سمیت ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ناجائز منافع خور مافیا ہی مہنگائی کا ذمہ دار ہے اسے ہم مہنگائی مافیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ نسبتاً زیادہ طاقتور اور تعداد میں بڑا مافیا ہے اس میں چھوٹے چھوٹے دکاندار سے بڑے بڑے آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں تک سب شامل ہیں۔ اگر کھیت سے منڈی تک کے سفر کے دوران قیمتوں میں ہونے والا اضافہ روزانہ کی بنیاد پر نشر کرنا شروع کر دیا جائے تو یہ اس ناجائز منافع خور مافیا کیلئے بھی تازیانہ ہوگا، اسی طرح کارخانے کی پروڈکش کاسٹ اور ریٹیل پرائس کے فرق سے عوام کو آگاہ کر دیا جائے تو آدھا کام عوام خود کر سکتے ہیں باقی آدھے کام کیلئے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی اوور ہالنگ کے ساتھ انہیں بااختیار بنانا ہوگا، ذخیرہ اندوزوں کی شناخت سے عوام کو آگاہ کریں تاکہ عوام جان سکیں کہ ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے اصل چہرے کون سے ہیں۔