پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ حیران ہیں کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں ڈی آر ایس کیوں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ڈی آر ایس کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز کا درجہ تبدیل کرنا پڑا۔ اب یہ میچز آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ سپر لیگ کے بجائے باہمی سیریز کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ یہ دورہ راتوں رات طے نہیں پایا بلکہ کرکٹ بورڈ کے پاس ان میچوں کو ہر لحاظ سے بہترین بنانے، ڈی آر ایس سمیت تمام بنیادی چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اچھا خاصا وقت موجود تھا لیکن بدقسمتی سے خود ساختہ "ماہر" خود ساختہ "کامیاب" خود ساختہ "بہترین" افسران یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔
گذشتہ کئی روز سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر کمرشل کے احتساب کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ڈی آر ایس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ناصرف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ بورڈ آفیشلز کی صلاحیتوں اور کھیل سے منسلک مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے حلقوں میں بھی پاکستان کے تعلقات پر سوالات اٹھے ہیں۔ رمیز راجہ سے پہلے جو لوگ کرکٹ بورڈ میں موجود تھے ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت باصلاحیت ہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کے بڑے تعلقات ہیں بلکہ یہاں تک بھی سنا گیا کہ نیوزی لینڈ کے دورہ پاکستان میں بھی کسی ایک شخص کے ذاتی تعلقات کام آئے ہیں۔ اٹھارہ سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم اور کرکٹ ورلڈکپ سپر لیگ میچز کیلئے ڈی آر ایس کا بندوبست نہ ہو سکے تو تعلقات اور صلاحیتوں کے حوالے سے سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں۔ بہرحال دیکھنا ہے کہ نومنتخب چیئرمین کرکٹ بورڈ اس معاملے کی تحقیقات کس انداز میں کرتے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کوتاہی کہاں ہوئی۔بورڈ چیئرمین کو دیکھنا ہو گا کہ کیا اس ٹیم کیساتھ وہ اپنے خوابوں کو تعبیر دے سکتے ہیں، جو کام یا جس رفتار کیساتھ وہ کام کرنا چاہتے ہیں موجودہ ٹیم میں سے کتنے لوگ ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی سطح پر ایسی غلطیاں دہرائی جاتی رہیں تو پھر سابق چیئرمین احسان مانی اور رمیز راجہ کی قیادت میں کیا فرق باقی رہے گا۔
رمیز راجہ نے عہدہ سنبھالتے کے چند گھنٹے بعد ہی فرسٹ کلاس کرکٹرز کے ماہانہ معاوضے میں ایک لاکھ روپے اضافہ کر کے کرکٹرز کے دل جیت لیے گو کہ اس حوالے سے ابھی بہت کام ہونا باقی ہے لیکن یہ وہ کام تھا جو پی سی بی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو کو نیا نظام نافذ کرتے وقت سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا لیکن نہ احسان مانی نے کرکٹرز پر پیسہ خرچ کرنے کی حکمت عملی اپنائی نہ ہی ان کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے اس طرف توجہ دی۔ البتہ اس دوران من پسند افسران کی تقرریاں، ترقیاں ہوتی رہیں۔ تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا لیکن کرکٹرز نظر انداز ہوتے رہے۔ بورڈ افسران کو اپنی مراعات کی فکر رہی۔جنہوں نے اب ڈی آر ایس کو اہمیت نہیں دی وہ ایسے فیصلوں میں بھی ڈی آر ایس کے قائل نہیں تھے۔
کل ہی ایک سابق امپائر سے بات ہو رہی تھی وہ امپائرنگ کے گرتے ہوئے معیار پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ کہنے لگے اسد رؤف اور علیم ڈار کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں ایک وقت میں پاکستان کے دو امپائرز کا شمار آئی سی ایلیٹ پینل کے بہترین امپائرز ہوتا تھا ان کے بعد خلا کیوں ہے، علیم ڈار اور کتنا عرصہ کھیل کے میدان میں نظر آ سکتے ہیں ان کے بعد وہاں کون ہو گا۔ اگر ایک ہی وقت میں ہمارے دو امپائرز بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے تو ان کا متبادل تیار کرنا کس کی ذمہ داری تھی۔ کرکٹ بورڈ نے آج تک اس حوالے سے کچھ کام کیا ہوتا تو کیا اتنا بڑا خلا پیدا ہوتا۔ کہنے لگے ہونا تو یہ چاہیے کہ رمیز راجہ کے آنے سے کرکٹ بورڈ کے متعلقہ شعبے کی کارکردگی کا بھی ریویو کیا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے میرا جواب تھا جناب صرف امپائرنگ کا شعبہ ہی نہیں بالخصوص وہ تمام افراد جنہیں احسان مانی کے دور میں بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ ان سب کیلئے "پرفارمنس ریویو سسٹم" کا اطلاق ضروری ہے۔ جس نے پرفارم نہیں کیا اس کیساتھ بھی مصباح الحق اور وقار یونس جیسا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ مصباح الحق اور وقار یونس کو گھر بھیجا جا سکتا ہے تو پھر مسلسل غلط فیصلے کرنیوالے افسران کیساتھ نرمی کیوں کی جائے۔ کرکٹ بورڈ میں جب تک پرفارمنس ریویو سسٹم نافذ نہیں ہو گا اس وقت تک بہتری مشکل ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024