اب بھی وقت ہے!
عوام کی بھلائی تو بہت دور کی بات ہے انتہائی مہنگی اشیاء خوردنوش نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے صرف کرپشن کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر عوام کو سہانے خواب دکھائے اور پھر اتنا خون نچوڑ لیا۔کہ غریبوں کی چیخیں نکل گئیں۔ اس دو سال میں میں نے مخدموں کے شہر میں غربت کے ہاتھوں مجبور جوان بدن بکتے دیکھے ہیں۔ خالی دعوے تھے معلوم نہیں پاکستان میں کون کون قائداعظم کے پاکستان کو توڑ کر نیا پاکستان بنانے میں شریک جرم بنے۔ جس قائداعظم کے پاکستان میں ہسپتالوں میں دوائیاں فری ملتی تھیں۔ اب نئے پاکستان میں ہسپتالوں کیلئے چندہ مانگا جاتا ہے۔ ایک پارٹی روٹی ‘ کپڑا‘ مکان کا نعرہ لگاتی ہے دوسری پارٹی برسراقتدار آتے ہی روٹی 10 روپے کی‘ پٹرول 105 روپے لٹر‘ چینی 105 روپے کلو اور آٹا 70 روپے کلو کر دیئے۔نوجوان جن کے نئے شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹ میں پہلی دفعہ نام آیا تھا انہوں نے پہلی دفعہ ووٹ دیکر موجودہ حکومت بنائی۔ وہ مایوس نظرآتے ہیں۔ قوم کی امانت تھا ووٹ ہم کیا کر بیٹھے!
گھر میں جب صبح چائے ملتی ہے تو دودھ ملاوٹ والا‘ گلی میںنکلیں تو گندگی سڑک پر جائیں بے ہنگم ٹریفک‘ منہ پر ماسک لگائیں تو سانس نہیں آتا۔
جائیں تو کدھر جائیں۔ ریڑھیوں پر قائداعظم کے پاکستان کا فروٹ بھرا پڑا ہے گاہک نہیں ہے 80 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اﷲ کے بندو سوچو! کیا وہ بچوں کو سیب‘ کیلا‘ آڑو کھلا سکتے ہیں۔ کرپشن بڑھ گئی ہے۔ عدالتوں میں لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنے ایک وکیل دوست سے پوچھا کہ کچہری میں عورتوں کا رش کیوں ہوتا ہے تو وکیل صاحب بولے لودھی صاحب۔ یہ رش پچھلے 2 سال میں زیادہ ہوا ہے زیادہ کیسز طلاقوں اور پھر فحاشی کے ہیں‘ آپ حکمران کیوں نہیں سمجھ رہے کہ فحاشی کیوں زیادہ ہوئی‘ وجہ صرف غربت ٹی وی ڈراموں میں بغیر دوپٹے اینکرز بیٹھی ہیں۔ بڑے بالوں کو اب دوپٹے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حکمران ذمہ دار ہیں آپ نے الیکشن مہم میں لوگوں سے وعدے کئے۔ کیا یہ وعدے تھے کہ تمہیں روزگاردیا جائے گا؟ کیا یہ وعدے تھے دوائیاں مہنگی ہوں گی‘ روٹی 10 روپے کی ملے گی؟ کیا یہ وعدے تھے سکول 6 ماہ بند ہوں گے فسیں پھر بھی دینی ہو ںگی؟ کیا ریاست میں حکومت اس لئے بنائی جاتی ہے کہ حکمران بنو اور پھر کوئی جہانگیر ترین بن کر لوٹے‘ کوئی زلفی بخاری بن کر لوٹے؟ حکومت تو ہوتی ہے عوام کی‘ حکومت ہوتی ہے عوام کیلئے اور حکومت ہوتی ہے عوام میں سے! یہ کون سی حکومت ہے؟ جس میں 11 مشیر وہ بیٹھے ہیں جن کے پاس امریکن‘ برٹش اور کینیڈین نیشنلٹی ہے۔ جو جب چاہیں گے واپس بھاگ جائیں گے۔
خدا کا واسطہ ہے اسٹیبلشمنٹ کے بھائیو‘ دوستو‘ کچھ سوچو! … ہم تو ماشاء اﷲ زندگی گزار بیٹھے اور آپ بھی۔
اب آئندہ نسلوں کیلئے سوچنا ہے ہمارے بچے ہماری طرح زندگی گزار سکیں گے‘ کیا انہیں خوراک پوری ملے گی۔ کیا نوجوان بازاروں میں نیکر پہن کر تو نہیں پھریں گے‘ کیا مستقبل میں انہیں دوائی سستی ملے گی۔ تعلیم حاصل کر سکیں گے؟
کیا درخت شہروں میں اس لئے تو نہیں لگا رہے تاکہ بجلی نہ ہو تو لوگ اس کے نیچے آرام کر سکیں؟
دوستو! حضرت علیؓ کا قول ہے انہوں نے فرمایا! ’’کفر کا نظام تو رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں‘‘
آج رعایا جس اذیت ناک صورت حال میں ہے وہ ناقابل بیان ہیلوگوں کی مسکراہٹ ختم ہو گئی ہے آدھا ملتان نیند کی گولی کھا کر سوتا ہے۔ افسوس ہے حکمرانوں پر‘ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ امیر امیر تر ہو رہا ہے‘ غریب زیادہ غریب ہو رہا ہے کیا بنے گا مجھے تو مستقبل قریب میں حالات سازگارنظرنہیں آرہے۔ میں کبھی بچوں کیساتھ گاڑی میں بازار جاؤں تو غریب عورتیں بچے اٹھائے اتنی زور سے گاڑی کا شیشہ بجاتی ہیں کہ ان کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے لگتا ہے مستقبل قریب میں شیشے توڑ کر سامان نہ چھین لیں۔ یہ حالت ہے غربت کی! وقت ہے اس ملک کا سوچ لو۔