تعلیم سے انصاف کریں!
گزشتہ منگل کووزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ملک کے ترقیاتی کاموں ومعیشت کے وسیع تر مفاد اور کووڈ 19 کے بعد مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے محکموں کی کوششوں کو سراہا۔ اس وقت جس محکمے کو عملاً مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہے وہ وزارتِ تعلیم ہے۔ اس لیے کہ چھ مہینے کے طویل انتظار کے بعد حکومت نے 15 ستمبر سے مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھول دیئے ہیں ، البتہ اگر کہیں کورونا کیسز بڑھے تواسکولز،یونیورسٹیز، کالجز دوبارہ بند کردیئے جائیں گے۔ دنیا بھر میں کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد پاکستان بھی اس وباسے بہت متاثر ہوا۔ اس دوران ملک میںمعاشی بحران بھی پیدا ہوا۔ جہاں اور صنعتوں میں نقصان ہوا، شعبۂ تعلیم بھی اس سے نہیں بچ سکا۔ کئی نجی ا سکول بند ہوگئے‘ اگرچہ دنیا بھر کی طرح یہاں بھی آن لائن کلاسز کا آغاز ہوا، مگر یہ شدید خطرات سے دوچار ملک کے پسماندہ تعلیمی نظام کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا کہ کورونا بحران میں تعلیم کو کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ وہ سوال تھا جس پر ہمارے تعلیمی پالیسی ساز اداروں کو ان چھ ماہ میں سر جوڑ کر بیٹھنا تھا اور تعلیمی سلسلے کے دوبارہ شروع ہونے سے پہلے تمام متعلقہ تعلیمی اداروں کے بورڈز ممبران کی میٹنگ بلاکر کورونا جیسے مزید سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے باہمی مشاورت کرنا تھی کہ اب اگر کسی وجہ سے بچوں کا تعلیمی حرج ہوتا ہے تو ہم نے کیا کرنا ہے، مگر ایسا کچھ نہیں کیاگیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے بھی محکمہ تعلیم کے بڑوں سے نہیں پوچھا کہ 15 ستمبر کے بعد تعلیم کے چھ ماہ کے نقصان کو کیسے پورا کیا جائے گا؟تعلیم کے بحران سے نکلنے کے لیے دنیا بھر میں ہونے والی تعلیمی رپورٹوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیم کو کتنا شدید جھٹکا لگا ہے، تاکہ آگے کے لائحہ عمل کو اسی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔ یونیسکو کی ’’گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2020ئ‘‘ کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں نوجوان اور بچے اسکول سے باہرہیں۔ اس کی بھیانک شکل کووڈ19 کی کی وجہ سے سامنے آئی اور اس صورتحال نے مزید پیچیدگی پیدا کردی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ غریب بچوں کی تعلیم اور اسکول سے دوری کا ایک اہم مسئلہ اور رکاوٹ ان کی تعلیم کی اہمیت سے ناآشنائی اور دیگر مسائل ہیں، ساتھ ہی عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے سنجیدہ اقدامات نہ کیئے توتعلیم کے فروغ اور اس کی پائیدار ترقی کے حصول کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے اور دنیا تعلیم سے جڑے اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوجائے گی۔اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں 25 کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے دور ہیں۔ دنیا کے امیر ترین اورزیادہ آمدن والے ممالک، جن میں یورپ اور شمالی امریکا شامل ہیں،وہاں بھی صرف 18 فیصد غریب آبادی سیکنڈری اسکول کی سطح تک تعلیم حاصل کررہی ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح سرخ لکیر پار کر چکی ہے۔پاکستان میں اس وبا سے تقریباً23 ملین طلبہ کی تعلیمی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی حالیہ وبا میں دنیا کے متوسط اور کم آمدن والے 40 فیصد ممالک میں اسکولوں کی بندش کے دوران تعلیم کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں تھا ۔پاکستان میں اس دوران تعلیم کے سلسلے کا بھٹا بیٹھا تو ہمارامحکمہ تعلیم اور اس کے ذیلی اداروں نے ان چھ ماہ میں کیا بول بوٹے لگائے، اس کے لیے ان کی پریس کانفرنسیں دیکھ لینے سے صورتحال واضح ہوجائے گی۔مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیاگیاہے اور انہوں نے ا س سے سیاسی، سماجی، معاشی ،ثقافتی اہداف حاصل کیئے ہیں ، اس لیے یہ ممالک تعلیم پر توجہ دے کر اس شعبے سے سو فیصد شرح خواندگی حاصل کرتے ہیں اور ترقی کا پہیہ چلاتے ہیں، مگر پاکستان کی کارکردگی اس شعبے میں آج تک کسی دور حکومت میںقابل ستائش نہیں رہی، البتہ مختلف ادوار میںہم نے 9 تعلیمی پالیسیاں منظور کروا کر اربوں کھربوں ڈالر ضروروصول کر لیے۔ اب تک کی ’’کامیاب‘‘ تعلیمی پالیسیوں میں سے قومی تعلیمی کمیشن 1959ئ، تعلیمی پالیسی 1972۔80ئ، تعلیمی پالیسی 1978ء اور قومی تعلیمی پالیسی 1998۔2010ء بنائی گئیں۔ تاہم آبادی میں بے تحاشا اضافے اور تعلیمی پالیسیوں پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کے باعث تعلیمی شعبے کی کارکردگی ناقص رہی۔ ایک اور نئی قومی تعلیمی پالیسی 2009 -2015ء کا اعلان بھی کیا گیا تھا اور جس کے اہداف کو اس وقت کی حکومت نے ’’انقلابی‘‘ کہا تھا، مگر وہ تعلیمی پالیسی بھی اپنی آخری سانسیں لیتی دم توڑ گئی۔ تعلیم کے شعبے کو کتنا اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ1947ء میں جوشرح خواندگی 16.1 فیصد تھی، اب 72 سال بعد گرتے پڑتے 60 فیصد تک پہنچی ہے ، مگر’’ اطمینان‘‘ کی بات یہ ہے کہ یہ شرح خواندگی ہمارے کئی ہمسایہ ملکوں جن میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور ایران شامل ہیں کے مقابلے میں تھوڑی سی کم ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں سب سے زیادہ کم خرچ شعبہ تعلیم پرکیا گیاہے جو ملکی جی ڈی پی کا صرف 2.24 فیصدبنتا ہے۔ اب اس صورتحال میں یہ کہنا چاہیئے کہ اگر تعلیم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیاتو پاکستان دنیا بھر میں تعلیم کے حوالے سے غیر منصفانہ ملکوں کی لسٹ میں آجائے گا لہٰذا حکومت سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ دنیا کو سائنسدان تب ہی دے پائیں گے ناجب تعلیم سے مکمل انصاف کریں گے…