عوام کو روٹی روزگار کے مسائل میںریلیف دینا ہی اب حکومت کا ترجیحی ایجنڈا ہونا چاہیے
مہنگائی سے متعلق عوامی شکایات پر وزیراعظم کی فکرمندی اور ریاست مدینہ کا خواب پورا کرنے کا عندیہ
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ریاست مدینہ کا خواب ضرور پورا ہوگا‘ بڑے خواب دیکھنے والا ہی بڑے کام کرتا ہے۔ ملک میں مہنگائی ہے‘ عوام کا شکوہ جائز ہے تاہم کچھ لوگ مشکلات کو نئے پاکستان سے جوڑتے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں راوی کنارے نئے شہر کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب میں امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ انکے بقول سابق حکمرانوں نے ملک کو قرضوں میں ڈبویا اور خود چلے گئے‘ قرضوں کی واپسی کیلئے ہمیں سخت فیصلے کرنا پڑے جس سے مشکلات آئیں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وباء سے نمٹنے کیلئے ہماری حکمت عملی کامیاب رہی۔ ہم نے غریب طبقہ کیلئے ہیلتھ کارڈ اور ہیلتھ انشورنس کے منصوبے شروع کئے۔ ہم پناہ گاہوں کے معیار میں مزید بہتری لا رہے ہیں‘ ہمیں کئی مرتبہ ایسے لگا کہ ہم آگے نہیں جا سکتے اور کوئی دیوار آگئی ہے تاہم ادارے مضبوط اور خواب بڑے ہوں تو تمام مشکلات سے مقابلہ کرنے کی قابلیت اور صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ انکے بقول جب ملک میں مشکل حالات ہوں تو لوگوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں اگر کسی کام کو مکمل کرنا ہو تو ہمیں اپنی کشتیاں جلانا ہوں گی اور پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔
عوام نے تو 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کے ریاست مدینہ جیسی فلاحی مملکت اور کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر صاد کرتے ہوئے ہی انہیں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تھا۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو اسی تناظر میں روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے گھمبیر مسائل سے فوری نجات کیلئے عوام کی توقعات پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ وابستہ ہو گئیں تاہم ملک جن گھمبیر اقتصادی مسائل میں جکڑا ہوا تھا ان سے نجات اور قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے حکومت کو اپنے آغاز ہی میں سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں جن کے ماتحت حکومت کا آغاز ہی پاکستانی کرنسی کے مقابلہ میں ڈالر کے نرخ سرعت کے ساتھ بڑھنے اور ساتھ ہی ساتھ ضمنی میزانیہ لا کر مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور بعض نئے ٹیکس لگانے سے ہوا۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی شروع دن ہی سے حکومت کی مجبوری بن گیا نتیجتاً مہنگائی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا اور عوام کیلئے پہلے سے موجود گوناںگوں مسائل کے پہاڑ مزید بلند ہوگئے۔ حکومت کو اپنے ابتدائی مہینوں میں چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 12‘ ارب ڈالر کے قریب بیل آئوٹ پیکیجز بھی مل گئے‘ اسکے باوجود حکومت کو اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑا جس کی عائد کردہ شرائط کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حکومت کو بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید بڑھانا پڑے۔ اس طرح عوام کے روٹی روزگار کے مسائل بتدریج بڑھنے سے پی ٹی آئی حکومت سے وابستہ عوام کی توقعات مایوسی میں بدلنا شروع ہو گئیں اور ان میں پیدا ہونیوالے اضطراب کو اپنے حق میں کیش کرانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی صف بندی کرتی نظر آئیں جو آج آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد اور متحدہ اپوزیشن کی صورت میں منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر حکومت مخالف تحریک کی فضا ہموار کرتی نظر آتی ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کیلئے یہ مشکل صورتحال بھی پیدا ہوئی کہ اسکے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے کے بعد حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام کی راہ ہموار ہونا شروع ہوئی تو کرونا کی گرفت نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس پر قابو پانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجہ میں قومی معیشت عملاً نڈھال ہو گئی اور ملک میں بے روزگاری کا نیا طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس سے عوام کے زندہ درگور ہونے میں رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ وزیراعظم عمران خان اس دوران کرپشن فری ایجنڈے کے تحت چونکہ کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے نعرے بھی تسلسل کے ساتھ لگا رہے تھے اور نیب نے احتساب کے عمل میں بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور عہدیداروں کیخلاف شکنجہ کسا ہوا تھا اس لئے عوام کے بڑھتے ہوئے اقتصادی مسائل کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت مخالف تحریک کیلئے باہم متحد ہو کر منصوبہ بندی کرنے کا موقع مل گیا۔ روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے گھمبیر مسائل نے چونکہ پہلے ہی عوام کو عملاً نڈھال اور بے حال کررکھا ہے اس لئے وہ اس صورتحال میں اپوزیشن کی تحریک کے کیلئے ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق ایندھن کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اب جبکہ پی ٹی آئی کے اقتدار کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور عوام کو اپنے روٹی روزگار کے مسائل میں کسی فوری ریلیف کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی جس سے انکے اضطراب میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لئے حکومت کو اپوزیشن کی کسی تحریک کی نوبت آنے سے پہلے ہی عوام کے غربت مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی شفاف اور قابل عمل پالیسی مرتب کرلینی چاہیے۔ وزیراعظم کے بقول حکومت کو سابقہ حکمرانوں کیلئے گئے قرض واپس کرنے کیلئے سخت پالیسیاں اختیار کرنا پڑی ہیںتو اپوزیشن کی پی ٹی آئی حکومت کیلئے گئے قرضوں پر بھی نظر ہوگی جبکہ ان قرضوں کیلئے آئی ایم ایف کی جو کڑی شرائط من و عن قبول کی گئی ہیں انکے باعث بھی مہنگائی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر یوٹیلٹی بلوں میں مزید اضافہ کیلئے بھی دبائو ڈالا جارہا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی شرائط لاگو کرتے ہوئے عوام کی اقتصادی مشکلات مزید بڑھائی جائیں گی تو پھر حکومتی گورننس کیلئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں جب عوام میں اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں مایوسی بڑھ رہی ہو اور اسی طرح مفقود ہوتے روزگار کے مواقع میں میرٹ کا سوال بھی اٹھ رہا ہو تو اس سے گورننس کے حوالے سے حکومت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
بے شک وزیراعظم عمران خان کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی شکل میں بڑھتے عوامی مسائل کا ادراک بھی ہے اور وہ عوام کو ان مسائل سے نجات دلانے کیلئے فکرمند بھی رہتے ہیں جبکہ انہوں نے عوام کیلئے ریلیف پیکیجز جیسے عملی اقدامات اٹھائے بھی ہیں تاہم عوام اب زبانی جمع خرچ اور وعدہ و عید سے آگے کا دیکھ رہے ہیں جو اپنے مسائل کے حل کیلئے پی ٹی آئی کے منشور کو عملی قالب میں ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ محرومیوں کا احساس تو ملک کے ہر حصے بالخصوص جنوبی پنجاب‘ چولستان‘ اندرون سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پی کے کے پسماندہ علاقوں میں بتدریج بڑھ رہا ہے جبکہ کراچی اور لاہور کے مسائل ان شہروں کی اہمیت کے تناظر میں جانچے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان فی الواقع کشتیاں جلا کر اقتدار میں آئے ہیں اس لئے انہیں آگے کا سفر طے کرنے کیلئے عوام کے دل جیتنا ہونگے جو انکے روزمرہ کے مسائل حل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ عوام یقیناً وزیراعظم کو حکومتی گورننس اور اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں سرخرو ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے اب حکومت کو عوام کی فلاح کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جس سے حکومت کی ساکھ میں اضافہ ہوگا ۔