کراچی بحالی منصوبہ دینی جماعتوں کا کردار
مِنی پاکستان‘‘ کراچی کی بحالی کیلئے رکھے گئے آدھے فنڈ بھی لگ گئے ایک ہزار ایک سو ارب میں سے نصف بھی درست طورپر خرچ ہوگیا تو تقدیر بدل جائیگی لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب جماعت اسلامی کراچی کے نیک نام اور روشن ضمیر مقامی رہنما اور قیادت اس کمیٹی میں شامل ہوں جو اس خرچ پر نگاہ رکھیں۔ عوامی سرمائے کی بو سونگھنے والوں کے رحم وکرم پر رہا تو گیارہ ہزار ارب چند جیبوں کے گٹر میں جاگریں گے۔ حافظ سعید اور انکے ایثار پیشہ ساتھیوں کی دیانتداری اور انتھک محنت سے بھی کراچی کے گیسو سنوارے جاسکتے تھے۔ تحریک لبیک کے بابا خادم حسین رضوی اور انکے دو جانثار ارکان سندھ اسمبلی کو فراموش کر رہا ہوں جنہیں کراچی بحالی منصوبے میں شامل کیا جانا چاہئے ۔
طوفانی بارشیں اور قیامت خیز سیلابی مسائل سے تربتر کراچی کے زخموں کا مداوا کون کرے گا۔ پورا کراچی غرقاب ہوا۔ شنوائی نہ ہونے پر صبر کا گھونٹ پی لینے والے غریبوں کے بجائے اس مرتبہ اشرافیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر یوں چھلکا کہ وہ ایک سیلاب بلا بن کر صفائی ستھرائی کے اداروں پر برس پڑے۔ تبدیلی لانے کیلئے بائیس برس قبل نکلنے والے عمران خان وزیراعظم بن کر سید مراد علی شاہ کے پاس پہنچے اور تبدیلی کی نئی کروٹ کا یوں تعارف پیش کیا کہ گیارہ سو ارب روپے کا کراچی پیکج خرچ کرنیوالی کمیٹی کی سربراہی پی پی پی کے وزیراعلی کو بخش دی۔ منصوبہ بندی کے وفاقی سیکریٹری ’کمیٹی ہذا‘ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی فرمائینگے۔ فائیو کور کے ایک بریگیڈئیر، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این۔ڈی۔ایم۔اے) کے اعلی عہدیدار، منصوبہ بندی اور ترقی کیلئے سندھ کے بورڈ کے چیئرمین‘ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ سندھ، کمشنر کراچی اور ایڈمنسٹریٹر کمیٹی کے دیگر ارکان میں شامل ہیں۔ اس کمیٹی کو دیکھ کر سمجھ میں آجاتا ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اس کمیٹی کو ہی یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ جب اور جسے چاہے کمیٹی میں شامل کرسکتی ہے۔
کراچی کے مسائل کے مستقل حل کے نام سے وزیراعظم عمران خان نے جو پیکج دیا ہے، اسکے تحت 92 ارب فراہمی آب یا پانی کی فراہمی پر خرچ ہوں گے۔ 267 ارب کوڑا کرکٹ، نالوں کی صفائی اور نقل مکانی کے انتظام پر صرف ہونگے جبکہ141 ارب سیوریج ٹریٹمنٹ پلان، 41 ارب سڑکوں کے منصوبوں، 572 عوامی ٹرین، ریل اور روڈ منصوبوں کیلئے بروئے کار آئینگے۔ کمیٹی کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ ہی وزیراعلی سندھ اس کا پہلا اجلاس طلب کرینگے۔
کراچی پیکج کا یہ نہایت اہم مرحلہ ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ رقم خرچ کیسے ہوگی؟ جن منصوبوں کیلئے یہ رقم مختص کی گئی ہے، ان کا معیار کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ کام کی رفتار اور معیار کی نگرانی کون کرے گا؟ سازباز جو عموماً بڑے منصوبہ جات میں کرلی جاتی ہے، اس کا تدارک یقینی بنایا جانا کیسے ممکن ہوگا؟ ایسے مزید کئی سوالات ہیں اور سردست ان کا کوئی جواب دکھائی نہیں دیتا۔ معاشرے سے خیر کا وجود ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اصل مسئلہ انہیں تلاش کرنے اور ذمہ داری دینے کا ہے۔ ایسے پاک کردار کے لوگ معاشرے سے بالکل ختم ہو جائیں تو قیامت ہی برپا ہوجائیگی۔ جماعت اسلامی اور حافظ سعید اور انکی جماعت بروئے کار آسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اہل، ایماندار اور عوام کے خدمت گزار افراد کی ٹیم موجود ہے جو اس نیک کام میں حکومت اور اداروں کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔ خلدمکانی نعمت اللہ خان نے تو مئیر کراچی کے طورپر جو کام کئے، وہ تاریخ کا ایک روشن باب بن کر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ ان جیسا تو ملنا شاید ممکن نہ ہو لیکن موجودہ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن بھی سیلاب، اس سے قبل کورونا میں پوری طرح متحرک رہے۔ افسوس کہ کراچی والوں کو بھی بھتہ خور اور ٹی ٹی مافیا ہی نظر آتا ہے۔ نیک لوگوں کی معاشرہ بھی وہ عزت افزائی نہیں کرتا جو ہونی چاہئے۔
الخدمت اور جماعت الدعوہ نے زلزلہ، سیلاب اور قدرتی آفات سمیت کئی ہنگامی نوعیت کے عذابوں میں انسانیت کی بے پناہ خدمت کی۔ انکے دامن پر بدعنوانی کا داغ نہیں۔ اسی لئے لوگ آج بھی اپنے اموال اور عطیات ان پر نچھاور کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کیلئے رضاکارانہ ایثار وقربانی کیلئے انہیں ہی ذریعہ بناتے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ ہمارا میڈیا رنگ بازوں کو تو خوب کوریج دیتا ہے لیکن درحقیقت عوام کی خدمت کرنیوالے چھپے ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ حادثہ جماعت اسلامی اور حافظ سعید جیسے پاکبازوں کی جماعت کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ میڈیا میں کھانسی کے چند شربت اور دوائیوں کے ڈبے بانٹتی اور مشرقی اقدار کا جنازہ نکالتی این جی اوز کی کوریج ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے۔ داڑھی، عمامہ اور سفید کرتا شلوار زیب تن کئے ایسے خیربانٹتے وجود انہیں دکھائی نہیں دیتے جو چھپ کر نیکی کو ہی اصل عبادت سمجھتے ہیں۔ جب نیت اور ارادہ ایسا ہو تو کوریج کیسے ہوگی؟لیکن اداروں کو تو علم ہونا چاہئے۔ دیانتداروں پر بدعنوانوں کو ترجیح دینا تو ظلم عظیم ہے۔ رقوم پہلے بھی دستیاب رہی ہیں۔ مسئلہ انکے دیانتدارانہ خرچ کا ہے۔ اگر عوامی سرمایہ شیر مادر سمجھ کر قربانی کا گوشت سمجھ کر ہڑپ کرلیاجائے گا تو کراچی کے مسائل اور تکالیف تبدیل نہیں ہوں گی۔
گیارہ سو ارب ایک بہت بڑی رقم ہے جو پاکستان کے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ معاشی مشکلات کے اس دور میں اس خطیر رقم کا جمع ہونا بھی کسی معاشی معجزے سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک نادر موقع میسرآگیا ہے۔ کراچی پیکج کو رائیگاں نہ ہونے دیاجائے۔ کراچی میں ترقی اور منصوبہ جات پر رقوم کے خرچ کی کمیٹی میں جماعت اسلامی سمیت دیگر نیک نام لوگوں کو شامل کیاجائے جو اس سارے عمل کی نگرانی کریں اور وزیراعظم براہ راست ان سے بریفنگ لے سکتے ہیں۔ تاکہ اس امر کو یقینی بنایاجائے کہ عوام کا ایک روپیہ بھی کسی بے ایمان کی جیب میں نہ جانے پائے۔ منصوبوں کے معیار کیلئے شفافیت کو یقینی بنایاجائے۔ ورنہ ایسے کئی پیکج آئے اور لوگوں کا رزق بن گئے۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو نتیجہ پھر وہی نکلے گا لیکن الزام عوامی سرمایہ لوٹنے والوں پر نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان پرلگے گا کیونکہ تبدیلی کا وعدہ انہوں نے کیا تھا۔ مافیاز سے عوام اور کراچی کو نجات دلانے کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔۔وہ اس امتحان میں فیل نہ ہوں۔