واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک غیر سرکاری تجزیاتی ادارے 'گیلپ' کی سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران بھی 85 فی صد افغان شہریوں کو ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔اس صورت حال میں تبدیلی کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہ دینے کی وجہ سے افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد کی رائے اپنے مستقبل کے بارے میں امید افزا نہیں ہے۔گیلپ کے مطابق "مسلسل دوسرے سال بھی 2018 میں کسی بھی افغان شہری نے موجودہ معیار زندگی کو اتنا مثبت قرار نہیں دیا ہے کہ جسے امید افزا قرار دیا جا سکتا ہو۔"گیلپ رپورٹ کے مطابق 2018 میں افغان عوام کے معیار زندگی سے متعلق سروے کے اعشاریوں میں کوئی امید افزا نتائج سامنے نہیں آئے اور یہ صورت حال گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کسی بھی ملک کی کم ترین سطح کے مساوی یا اس سے کم رہی۔گیلپ کی رپورٹ میں روز مرہ زندگی کے بارے میں اعشاریے بحیثیت مجموعی افغان عوام میں امید کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ چیز اس لیے بھی اہم ہے کہ سروے میں جن لوگوں سے سوالات کیے گئے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی اور ان میں سے دو تہائی کی عمریں 35 سال یا اس سے کم تھیں۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن بات چیت منسوخ ہوچکی ہے اور 28 ستمبر کو ملک میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔بعض افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں ماہ ہونے والے صدراتی انتخابات کے بعد ایک منتخب افغان نمائندہ حکومت ملک میں امن کے قیام میں موثر کردار ادا کر سکے گی۔افغان صحافی دانش کروخیل کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں افغان صدارتی انتخابات کا انعقاد ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ان کے بقول اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان آیا امن بات چیت دوبارہ شروع ہو گی یا نہیں، اس لیے میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ افغان صدراتی انتخاب کے ذریعے ایک ایسی منتخب حکومت قائم ہو، جو امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔"تاہم افغان امور کے تجزیہ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ افغان صدارتی انتخابات امن کے قیام میں معاون ثابت ہو سکیں گے۔گیلپ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سلامتی اور تحفظ کے فقدان کی وجہ سے معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے بشمول سڑکوں، اسکولوں اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کم مواقع موجود ہیں اور افغانستان کے دیہات میں جاری لڑائیوں کے باعث لاکھوں افراد کو اپنے گھربار چھوڑ کر کابل جیسے بڑے شہروں میں سکونت اختیار کرنی پڑی ہے، جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔گیلپ کی رپورٹ کے مطابق افغان عوام کی اپنے مستقبل سے ناامیدی کی ایک وجہ یہ صورت حال بھی ہے۔اگرچہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا منسوخ ہونا افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اچھی خبر ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فورسز کے انخلا سے طالبان کے ہاتھ مضبوط ہونے کا خدشہ ہے۔امن و امان کی ابتر صورت حال میں اگرچہ لاکھوں افغان ووٹر خطرات مول لے کر اس ماہ کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، لیکن غیر یقینی حالات اور طالبان کے جاری حملوں کی فضا میں وہ اپنے مستقبل سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں.
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024