جنونی بھارت کے ہاتھ نہ روکے گئے تو کرۂ ارض کی تباہی کی ذمہ داری عالمی طاقتوں پر ہوگی
بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر لانے کا حکم‘ یورپی ارکان پارلیمنٹ کا بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقامی اخبار کے ایڈیٹر کی جانب سے جموں و کشمیر میں پابندیاں ختم کرنے کیلئے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں عدالت نے حکم دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی جلد سے جلد بحال کرنے کیلئے تمام اقدامات کیے جائیں۔عدالت نے کہا کہ حکومت کو ہر اقدام لیتے ہوئے ملکی مفاد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ دوسری جانب مودی حکومت کے سالیسٹر نے عدالت کو جھوٹی کہانیاں سناتے ہوئے کہا کہ لداخ کے علاقے میں کوئی پابندی نہیں، 93 پولیس اسٹیشنوں سے پابندیوں ہٹالی گئی ہیں جبکہ وادی میں اسپتال اور میڈیکل اسٹورز سمیت دیگر کاروبار کھلے ہوئے ہیں۔ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بچے بھی پابندیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہیں۔بھارتی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ درخواست جموں و ہائی کشمیر کی ہائیکورٹ سے متعلق ہے جسے وہ بھی دیکھ سکتی ہے، اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ تک جانا بہت مشکل ہے۔بھارتی چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دئیے کہ جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک جانا کیوں مشکل ہے؟ کیا کوئی راستے میں آرہا ہے؟ ہم جموں و کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے یہ جاننا چاہتے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو خود جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ جاؤں گا۔سپریم کورٹ نے کانگریس رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی۔عدالت نے غلام نبی آزاد کو شہریوں سے ملاقات کرنے اور ان کو طبی سہولتوں کی فراہمی کو چیک کرکے وادی کی زمینی صورتحال پر رپورٹ دینے کا بھی کہا ۔بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے نظر بند کررکھا ہے جس کیخلاف انکے قریبی تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی دوست نے درخواست دائر کی ہے‘ بھارتی حکومت نے فاروق عبداللہ کی رہائی کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزار فاروق عبداللہ کا کوئی عزیز نہیں، انہیں رہا کرنے کی درخواست قانونی عمل میں ناجائز مداخلت ہے۔
دروغ گوئی‘ فریب کاری و مکاری بنیا ذہنیت کی شرست میں شامل ہے۔ مودی سرکار کی طرف سے صرف سپریم کورٹ ہی میں نہیں‘ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مقبوضہ وادی میں سب ٹھیک ہے‘ لوگ معمول کی زندگی جی رہے ہیں‘ جبکہ عالمی میڈیا کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دے رہی ہیں۔ عالمی میڈیا جس میں جرمن میڈیا سرفہرست ہے‘ کے مطابق بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے آج 43 روز گزر گئے ہیں‘ سخت پابندیوں کے باوجودوادی میں روزانہ بیس مظاہرے ہوتے ہیں۔ وادی میں مواصلات کا نظام مکمل طور پر معطل ہے۔ ٹیلی فون سروس بند ہے جبکہ ذرائع ابلاغ پر بدستور سخت پابندیاں عائد ہیں۔ سکول اور تجارتی مراکز بھی بند ہیں۔ گزشتہ روز دو نوجوانوں کو کتھواکے علاقے میں جعلی مقابلے میں شہید جبکہ ایک نوجوان کو جموں کے پولیس سٹیشن میں دوران حراست شہید کیا گیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے جھوٹ بولنے والی حکومت سے کہا ہے کہ ہر اقدام لینے سے پہلے ملکی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس خود دیکھیں کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مفادات کی بجاآوری ہوئی ہے یا ان پر زد پڑی ہے۔ حکومت کا کام عوام کے مفادات کا تحفظ اور انہیں ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانا ہوتے ہیں جبکہ بھارتی حکومت نے ایک کروڑ کے قریب آبادی کو ڈیڑھ ماہ سے انسانی حقوق‘ ادویات‘ خوراک سمیت بنیادی ضروریات زندگی سے یکسر محروم کر رکھا ہے۔ انکے سر پر مہلک اور جدید اسلحہ سے لیس نو لاکھ سے زائد سفاک فوجی مسلط کئے گئے ہیں۔ کشمیریوں کیلئے ان کا اپنا ہی وطن عقوبت خانہ اور ٹارچر سیل بنا دیاگیا ہے۔ پوری وادی پابندیوں میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ سائل ہائیکورٹ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اول تو ہستپال بھی دیگر اداروں کی طرح بند ہیں‘ اگر کوئی کلینک کھلا بھی ہو تو کرفیو کی پابندیوں کے باعث وہاں تک پہنچنانا ممکن ہے۔ اور ایسے حالات میں کہ مودی سرکار اور وادی میں تعینات بھارتی فورسز ہر کشمیری کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ بھارتی حکومت کی مجرمانہ ذہنیت اور اسکی فورسز کی بربریت سے تمام تر پابندیوں کے باوجود دنیاآگاہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی متحرک اور فعال سفارتکاری کا کردار اہم رہا ہے۔ معاملہ سلامتی کونسل کے سامنے رکھا گیا۔ او آئی سی‘ یورپی یونین سمیت ہر فورم اور بااثر ملک تک کشمیریوں کی آواز پہنچائی گئی جس پر مثبت ردعمل ضرور آیا مگر بھارت کے ظالمانہ ہاتھ روکنے کے جو اقدامات متقاضی تھے‘ وہ نہیں اٹھائے گئے۔
دنیا نہ صرف کشمیریوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ان پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی مذمت کر رہی ہے بلکہ انکے حق میں کئی ممالک میں احتجاج اور مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ڈنمارک میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرے میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔مظاہرین نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو فوری ہٹایا جائے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔لندن کے علاقے ریڈنگ میں مظاہرین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی اور کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ فضا’’مودی دہشت گرد’’کے نعروں سے گونج اٹھی، شرکاء نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اقدام نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ ممبر یورپین پارلیمنٹ جان ہاورتھ اور دیگر اہم شخصیات بھی احتجاج میں شریک ہوئیں۔ ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہرآروس میں بھی کشمیریوں سے یکجہتی کا بھرپور اظہارکیا ‘بھارت مخالف احتجاج میں پاکستان،کشمیر،سعودی عرب اور صومالیہ کے شہریوں نے شرکت کی،خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
دنیا بھر میں بھارتی اقدام کی مذمت ہو رہی ہے۔ تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے‘ کوئی ایک بھی آواز بھارت کی حمایت میں نہیں اٹھی‘ حتیٰ کہ بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں کے حق میں باتیں ہو رہی ہیں‘ مقبوضہ کشمیر کے سابق بھارتی طفیلی حکمران بھی بھارت کا ساتھ نہیں دے رہے۔ بھارتی اپوزیشن مودی کے بہیمانہ اقدام کی شدید مخالفت اور مذمت کر رہی ہے۔ اب بھارتی سپریم کورٹ پر بھی کشمیریوں کے ساتھ مودی سرکار کا ظالمانہ سلوک عیاں ہوا ہے۔ اسی لئے حکومت کو وادی میں معمولات زندگی جلد سے جلد بحال کرنے کیلئے تمام اقدامات اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی غلام نبی آزاد کو عدالتی نمائندہ کی حیثیت سے مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ سپریم کورٹ کو اصل صورتحال سے آگاہ کر سکیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے کسی غیرمعمولی فیصلے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی تاہم کشمیریوں کی مشکلات قدرے کم ہونے کی امید رکھنی چاہیے۔ دنیا بھارتی اقدامات‘ کشمیریوں پر مظالم اور بربریت پر جتنی بھی مذمت کرے‘ تشویش کا اظہار کرے‘ مظاہرے ہوں‘ احتجاج ہوں‘ اس کا ہٹ دھرم بھارت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ یورپی ارکان پارلیمنٹ نے جن کی نمائندگی فرینڈ آف کشمیر گروپس کے چیئرمین رچرڈ کوربیٹ نے کی‘ مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کیلئے بھارت پر تجارتی و سفری پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ عالمی برادری کو اس سے بھی آگے جانے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کو حق خودارادیت دلانے کیلئے بھارت پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے جس طرح کی امریکہ نے صدام دور میں عراق اور طالبان دور میں افغانستان پر عائد کی تھیں۔ اس وقت کشمیریوں کے بھارتی مظالم کیخلاف دنیا بھر میں کہرام مچا ہوا ہے‘ جس پر عالمی طاقتوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اگر عالمی طاقتیں صرف بیان بازی تک محدود رہیں اور جنونی بھارت کے ہاتھ نہ روکے تو بھارت کو اس سے مزید حوصلہ ملے گا جو خطے کی سلامتی اور امن کیلئے خطرے کا باعث ہوگا۔ بعید نہیں کہ کرۂ ارض بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہو جائے جس کی ذمہ داری بااثر عالمی قوتوں پر ہی ہوگی۔