منگل ‘ 17 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 17ستمبر 2019 ء
آئی ایم ایف کا مشن پاکستان پہنچ گیا۔ معاشی اصلاحات کے لیے تجاویز دے گا
جی ہاں پوری قوم جانتی ہے کہ آئی ایم ایف کی تجاویز کیا ہوں گی۔ بلکہ اسی طرح جس طرح ذبح ہونے والا جانور قصاب کے ہاتھ میں آتے ہی جان لیتا ہے کہ اب اس کی گردن کٹنے والی ہے۔ پہلے ہی بجٹ میں حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق آئی ایم ایف کے کارندوں کے توسط سے جو کچھ عوام کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ مہنگائی کا جو تحفہ عوام کو دیا عوام ابھی تک اس کے صدمے سے نہیں سنبھلے ہیں۔ یہ نئی تجاویز کیا قیامت ڈھاتی ہیں اس کا بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ ہماری حکومتیں بھی کتنی بے بس ہیں کہ از حد کچھ نہیں کر سکتیں جس نے درد دیا ہے اسی سے دوا لینے پہنچ جاتی ہیں۔ کہاں آئی ایم ایف کے منہ پر اس کے قرضے مارنے کے دعوے۔ کشکول توڑنے کے اعلانات اور کہاں یہ بے چارگی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سابق ملازموں سے مل کر ملکی معیشت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس میں عوام کو ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی کند چھری سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مشن کی آمد کے ساتھ ہی عوام کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا ہے۔ خطرہ ہے کہ اب پھر روپے کی قدر میں کمی بجلی تیل اور گیس کی قیمت اضافہ اور ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر عوام الناس پر خودکش حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گا۔
٭٭٭٭
طاہر القادری کی ریٹائرمنٹ سے کارکن غمزہ ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات عوامی تحریک
تحریک والوں کو اتنی جلدی دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل بھی مولانا اس قسم کے اعلانات کرتے رہے ہیں جو بعدازاں عوام اور کارکنوں کے پرزور اصرار پر واپس بھی لیے گئے ہیں اس لیے امید رکھیں جلد ہی مولانا کی واپسی بھی متوقع ہے۔ ویسے بھی ہمارے وزیر اعظم یوٹرن کو عظیم لوگوں کا تحفہ قرار دیتے ہیں۔ ویسے مولانا نے یہ فیصلہ اس وقت کیوں کیا۔ اس وقت تو ملک میں ان کے برادر اصغر یعنی عمران خان کی حکومت ہے۔ یہی تو وقت ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین اور لواحقین کو انصاف دلائیں۔ مگر لگتا ہے تحریک انصاف کی حکومت میں بھی مولانا کو وہ انصاف نہیں مل رہا جس کا وہ خواب دیکھتے آ رہے تھے۔ اگر ایسا تھا تو پھر اب انہیں دھرنا دینا چاہئے تھا مظلومین اور شہدا کو انصاف دلانے کے لیے مگر لگتا ہے وہ اپنے چھوٹے بھائی کی حکومت کو پریشان کرنا نہیں چاہتے اس لیے سارا کھیل ہی چھوڑ دیا ۔ویسے بھی اگر مولانا چاہتے تو اپنے اداروں اور جماعت کے اربوں روپے کے اثاثوں میں سے ان شہدا کی مالی مدد کر کے ان کو دربدر محتاج ہونے سے بچا سکتے تھے مگر یہ اثاثے تو انہوں نے اپنے لواحقین کیلئے چھوڑنے ہیں۔ اب بھی دیکھ لیں مولانا کے بعد ان کا صاحبزادہ بطور جاں نشین سیاسی و مذہبی تنظیم کا سربراہ بنے گا۔ کیونکہ ہماری مذہبی ہوں یا سیاسی جماعتیں ان میں ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا موروثی سلسلہ احسن طریقے سے چلتا ہے۔ کیا مجال ہے جو کسی عہدیدار کو یا کارکن کو ان فیصلوں میں بولنے کا حق ہو۔ اگر کوئی سر پھرا ایسا کرے تو اسے یک بینی و دو گوش پکڑ کر جماعت یا تنظیم سے یوں باہر کیا جاتا ہے جیسے دودھ میں سے مکھی۔ اب بھلا اس دور میں کون مکھی بننے پر تیار ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
باکسر وسیم کا وطن واپسی پر ٹھنڈا استقبال
جب حکومت اور محکمہ کھیل کی آنکھوں پر صرف اور صرف کرکٹ کی پٹی بندھی ہو تو انہیں کیا خاک کوئی اور کھیل یا کھلاڑی نظر آئے گا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ پہلے بھی ہماری ویمن ٹیم نے ایشیا کپ میں بھارت کو ہرایا مگر گھر کی مرغی دال برابر یہاں واپسی پر ان کو لینے تک کوئی نہیں گیا اور بھی بے شمار ایونٹس میں کامیاب لوٹنے والے یونہی سرجھکائے وطن آئے جیسے انہوں نے کوئی کارنامہ نہیں گناہ کیا تھا جو ناقابل معافی ہے۔ باکسر وسیم نے عرب امارات میں منعقدہ پروفیشنل باوٹ میں اپنے فلپائنی حریف کو پہلے ہی راونڈ میں ناک آئوٹ کیا تھا۔ وہ اپنی یہ جیت پہلے ہی کشمیریوں کے نام کر چکے ہیں۔ اب لگتا ہے حکومت اور باکسنگ فیڈریشن کو ان کی یہ ادا پسند نہیں آئی کہ ان کی معاونت اور سرپرستی کے بغیر ایک باکسر کس طرح عالمی سطح کا مقابلہ جیت گیا۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان باکسر اور کچھ نہیں تو کم از کم اس بات کا مستحق ضرور تھا کہ باکسنگ فیڈریشن والے جو سالانہ کروڑں روپے کھیل کے فروغ کے نام پر ڈکار لیتے ہیں۔ چند پھولوں کے ہار لے کر ہی اس کا استقبال کرتے اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ افسوس انہیں ایسا کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ اب بھی وقت سے وزارت کھیل کرکٹ کو ہی کھیل نہ سمجھے کرکٹ کے علاوہ بھی دنیا میں بے شمار کھیل ہیں جن میں پاکستانی اپنا رنگ جما سکتے ہیں۔ بہت سے لعل و گوہر وطن کے آنچل میں چھپے ہوئے ہیں ذرا ان پر بھی توجہ دیں انہیں بھی دنیا کے سامنے لائیں۔ کھیلوں میں ان کا اور ملک کا نام روشن کریں۔ آخر یہ جو کھیلوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے ہوتے ہیں۔ یہ کہاں جاتے ہیں کیا یہ صرف کرکٹ پر ہی خرچ ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
نیتن یاہو نے مغربی کنارے کے دیگر علاقوں کا اسرائیل سے الحاق کا اعلان روک دیا۔
بھارت سے تو اسرائیل زیادہ جمہوری ملک نکلا جس نے عالمی برادری کی طرف سے جوتے پڑنے سے پہلے ہی اپنی غلطی سے رجوع کرلیا۔ دوسری طرف بھارت کو دیکھ لیں‘ سو جوتے بھی کھا رہا ہے اور سو پیاز بھی‘ مگر اپنی غلطی پہ اڑا ہوا ہے۔ شکر ہے اسرائیل نے بھارت کی پیروی نہیں کی۔ حالانکہ بھارت کو خود اب احساس ہونا چاہیے کہ اس نے جس ملک کے ماڈل کے طور پر کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنا لیا ہے اس ملک نے مغربی اردن کے مقبوضہ علاقے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا اعلان واپس لے لیا ہے۔ اب کم از کم تھوڑی سی شرم بھی اگر ہے تو بھارت بھی مقبوضہ کشمیر کا اپنے ساتھ جبری الحاق کا مکروہ فیصلہ واپس لے لے۔ کشمیری 72 برسوں سے اس زبردستی کے الحاق کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ او آئی سی نے جس طرح اسرائیل کے فیصلے پر فوری ردعمل ظاہر کیا‘ وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا اسی ملی جذبہ کو زندہ کرتے ہوئے کشمیر کے حوالے سے بھی اجلاس بلائے تاکہ کشمیریوں کو بھی پتہ چلے کہ مسلم امہ ہمارے ساتھ ہے ورنہ اس وقت تو کشمیریوں کے ساتھ صرف پاکستان ہی کھڑا ہے۔ کشمیریوں پر اس بڑی نحوست کا نزول بی جے پی کے حکومت سنبھالتے ہی ہوا تھا۔ نریندر مودی کے سبز قدم پڑتے ہی کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا منصوبہ شروع ہوا۔ اب اس نریندر مودی کی نحوست کشمیر میں ایک اور خونی بحران کو جنم دے چکی ہے۔ مودی کو نجس یا سبز قدم صرف ہم نہیں کہہ رہے بھارتی جنتا دل کے رہنماء اور سابق وزیر اعلیٰ کرناٹک سوامی کمار بھی کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلائی ادارے میں مودی کی موجودگی کی نحوست کے باعث چندریان کا خلائی مشن ناکام ہوا۔