طالبان ٹرمپ ہنی مون کی اصل کہانی
دوحا امن مذاکرات کی اصل کہانی کیا تھی شرائط کیا تھیں طالبان کیمپ ڈیوڈ کیوں نہیں جانا چاہتے تھے؟ معاہدے کے متفقہ مسودے کی تین کاپیاں کس کس کے پاس ہیں؟؟ زلمے خلیل زاد اور امریکی جرنیل سکاٹ ملر کس بات پر دنگ رہ گئے؟؟؟ کیا طالبان اور ٹرمپ میں ایک سال سے جاری ‘‘ہنی مون’’ ختم ہوگیا ہے! طالبان کے ترجمان اور دوحا مذاکرات کار سہیل شاہین حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں :امریکی صدر کے مذاکرات کی موت سے متعلق بیان پر سہیل شاہین نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ بیان حیران کن تھا۔ امن معاہدے کیلئے ایک سال مذاکرات جاری رہے۔ عملدرآمد فریم ورک بھی طے کرلیاتھا۔ مسودے کی نقول بھی تقسیم ہوگئی تھیں۔ معاہدے کی ایک نقل میزبان قطر، دوسری طالبان اور ایک امریکہ کو دی گئی۔ نائب امیر سیاسی امور ملا غنی برادر کی ڈاکٹر خلیل زاد اور کمانڈر جنرل سکاٹ ملر سے ملاقات ہوئی۔ وہ امن معاہدے پر خوش تھے۔ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب پر بات ہورہی تھی کہ اس دوران امریکی صدر کا یہ ٹویٹ جاری ہوا۔ ہمارے درمیان تو یہ بات ہورہی تھی کہ امن معاہدے پر دستخط کس تاریخ کو ہوں گے، معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں 24 ممالک کے وزرائے خارجہ کو مدعوکرنے کا طے ہوا تھا۔مستقبل کے کمیونیکشن چینل کیلئے ہم نے اپنے لوگ نامزد کر دیئے تھے۔ یہ آخری ملاقات تھی۔ امریکی چیف آف پولیٹیکل افئیرز اس میں شامل تھے۔ امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میں مذاکرات کے بارے کچھ نہیں کہا۔کیمپ ڈیوڈ میں اتوار کی ملاقات پر سہیل شاہین نے کہاکہ امریکی نمائندہ خصوصی ڈاکٹر زلمے خلیل زاد نے دعوت دی تھی۔ جسے ہم نے قبول کیا۔ ہم نے ڈاکٹر خلیل زاد کو آگاہ کیا کہ پہلے امن معاہدہ پر دستخط ہوجائیں تاکہ سازگار ماحول پیدا ہوجائے جسکے بعد ہم امریکہ جائیں۔امن معاہدے پر دستخطوں کی تقریب قطر میں ہونا تھی جس پر تمام فریقین متفق تھے یہ بھی طے ہوگیا کہ معاہدہ پردستخط عالمی گواہان اور میڈیا کی موجودگی میں ہونگے۔ کیمپ ڈیوڈ یا کہیں اور دستخط کرنے کی بات نہیں ہوئی تھی۔ تقریب کیلئے تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی تھی۔ یہ تقریب ایک ہفتے میں منعقد ہونا تھی۔‘‘
کیا آپ صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ ’’ایک دعوت ہم نے قبول کرلی تھی لیکن دوسرا معاملہ تاریخ کے تعین کا تھا۔ ہم نے دیکھنا تھا کہ ہم اس دعوت پر جائیں یا نہیں۔ کیونکہ امن معاہدے سے پہلے ہمارے درمیان جنگ بندی ابھی نہیں ہوئی تھی جس کا مطلب ہے کہ ایک دوسرے پر حملے ہوں گے۔ بعض حملوں کا ہم نے جواب بھی دیا ہے۔ امن معاہدے پر دستخطوں سے جنگ بندی کی راہ ہموار ہوجائے گی اور حملے رْک جائیں گے۔ امن معاہدے پر دسخطوں سے پہلے امریکہ جانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنے اس موقف کا اظہار زلمے خلیل زاد کو کردیاتھا۔‘‘
سہیل شاہین نے بتایا کہ ’’امن معاہدے کے چار بنیادی اہم نکات ہیں۔ ان میں سرفہرست نکتہ غیرملکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہے۔ دوئم، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ ہونے دینے سے متعلق ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغازکیاجائے گا اور چوتھا نکتہ یہ تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔‘‘
افغانیوں سے جنگ بندی کامعاہدہ کیوں نہ کیا گیا ؟؟ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’’جنگ بندی کا نکتہ بین الافغان مذاکرات میں شامل ہے۔ جامع جنگ بندی کا نکتہ افغانوں سے بات چیت کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور جب ان سے بات ہوگی تو اس پر معاہدہ ہوگا۔‘‘
ٹرمپ کے مذاکرات ختم ہونے کے بیان پر انہوں نے کہاکہ ’’اگر امریکی طالبان پر حملہ نہیں کرتے اور افغانستان سے جانا چاہتے ہیں تو ہم ان پر حملہ نہیں کریں گے، لیکن اگر انہوں نے ہم پر حملہ کیا، بمباری، کی تو پھر ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو گزشتہ 18 سال سے ہورہا ہے۔‘‘امریکہ کے بغیر کسی معاہدہ کے افغانستان سے انخلاء کی میڈیا کی رپورٹس پر انکا کہنا تھا کہ ’’اگر امریکہ کے ساتھ ہمارا امن معاہدہ ہوتا ہے تو پھر ہم اس معاہدے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم ان پر حملہ نہ کریں۔ لیکن اگر وہ معاہدے کے بغیر انخلاء کرتے ہیں تو ہماری مرضی ہے کہ ہم ان پر حملہ کریں یا نہ کریں۔ اگر ہمارے قومی اور اسلامی مفاد میں ہوا تو حملہ کریں گے۔ اگر ہمارے مفاد میں نہ ہوا تو حملہ نہیں کریں گے۔ یہ ہم منحصر پر ہے۔‘‘ افغان صدارتی محل کے ترجمان صدیق صدیقی کے بیان کہ ’طالبان کادوحا ہنی مون اوور ہوگیا ہے‘ پر سہیل شاہین نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہاکہ ’’افغانستان میں 70 فیصد علاقہ پہلے ہی ہمارے پاس ہے۔ جب یہ لوگ کابل ائیر پورٹ جاتے ہیں جو صدارتی محل سے چند کلومیٹر پر ہے تو یہ لوگ ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ ہم کابل شہر میں بھی موجود ہیں۔ تو یہ بتائیں کہ کس کا ہنی مون اوور ہوا ہے؟ کابل میں این جی اوز ہم سے اجازت لیتی ہیں، ان این جی اوز کی کابل شہر اور دیگر علاقوں میں نقل وحرکت کی اجازت ہم دیتے ہیں۔ تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کس کا ہنی مون اوور ہوا ہے؟ اور اصل کون وہاں مالک ہیں اور یہاں کے اصل وارث کون ہیں؟‘‘
دیگر افواج افغانستان میں رہیں گی؟کے سوال پر ان کا جواب تھا کہ ’’اس معاملے پر بھی ہم نے امریکیوں سے بات کی ہے۔ غیرملکی افواج میں نیٹو افواج بھی شامل ہیں۔ ہم نے تمام غیرملکی افواج کے انخلاء کی بات کی ہیں۔ وہ سب افغانستان سے جائیں گے۔ یہ معاہدہ کا حصہ ہے۔‘‘
افغانستان کیلئے طالبان کے مستقبل کے وژن پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’یہ آزاد، خودمختار، خوشحال، قومی وحدت، پر مشتمل افغانستان ہوگا۔ وہ حکومت جس کے پاس سیاسی فیصلے کرنے کی طاقت ہوگی۔ وہ تمام فیصلے خود کریگی اور کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گی خواہ وہ کوئی سپر پاور ہو یا صفر پاور ہو۔ افغان عوام ہی اپنے ملک کے اصل مالک ومختار ہوں گے۔ وہ اس کی تعمیربحالی اور ترقی کیلئے ایک گھر کے افراد کی طرح کام کرینگے۔‘‘ طاقت سے اسلام نافذ کرینگے؟ یا جمہوریت اور انتخابات کو اپنائیں گے، پر ان کا دوٹوک اور نہایت معقول جواب یہ تھا کہ ’’بین الافغان مذاکرات میں اس پر بات ہوگی۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ افغانستان کی مستقبل کی حکومت اسلامی حکومت ہوگی۔ نظام کے حوالے سے معاملے پر مذاکرات پر بات کرینگے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ 40 سال سے افغان عوام اور مجاہدین نے اپنی جانیں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے قربان کی ہیں۔‘‘
’’ہم سب افغانیوں، سیاسی رہنماوں بشمول موجودہ کابل انتظامیہ سے بات کریں گے کہ مستقبل کی حکومت کیسے ہونی چاہئے؟ تاکہ ایک اتفاق رائے تک پہنچ سکیں۔‘‘
طالبان ٹرمپ میں ہنی مون کا پہلا دور ختم ہوا ہے زیادہ بغلیں بجانے اور خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس ہنی مون کا دوسرا مرحلہ موسم سرما کے آغاز سے پہلے شروع ہوجائے گا۔ بے پناہ علاقائی دباؤ کی وجہ سے امن معاہدہ ٹرمپ کے لئے سیاسی مجبوری بنتا جارہا ہے اور نیمْ خواندہ طالبان سیاسی مجبوریوں کو اپنے حق میں استعمالْ کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں ۔