مسئلہ ’’اقصائے چین‘‘ کا
مکرمی! جناب وقار مسعود خاں کے ’’آشوب آگہی‘‘ (8 ستمبر 2019ئ) میں ’’اقصائے چین‘‘ کا ذکر آیا ہے جسے ہمارے اردو پریس کی عام روش کے مطابق انگریزی Aksai Chin کی پیروی میں ’’اکسائی چن‘‘ لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔ ’’اقصیٰ ‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: ’’سب سے پرے، بہت دُور، آخری سرا یا کنارہ‘‘۔ حضرت دائود سلیمان علیھما السلام کی تعمیر کردہ مسجد بیت المقدس کو عربوں نے ’’مسجد الاقصیٰ‘‘ کہا کہ وہ مسجد الحرام (مکہ) کے مقابلے میں عرب سے دُور بنی تھی۔ ملک مراکش کا نام عربی میں ’’مغرب الاقصیٰ ‘‘ تھا جو کہ مغرب الادنیٰ (طرابلس و تیونس) اور مغرب الاوسط (الجزائر) کی نسبت دُور بحرا و قیانوس کے کنارے واقع ہے اور آج کل مراکش کو عربی میں صرف ’’المغرب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح لداخ اور چین کے درمیان واقع تکونی علاقے کو مسلم جغرافیہ دانوں نے اقصائے چین (چین کا آخری سرا) کا نام دیا تھا جسے یورپ والے Aksai Chin لکھنے لگے۔ ساڑھے ستر ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اقصائے چین درہ قراقرم سے شروع ہو کر شمال میں سنکیانگ (شِن جیانگ) اور مشرق اور جنوب میں تبت کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے جسے اکتوبر نومبر 1962ء کی چین بھارت جنگ میں چین نے بھارت سے چھین لیا تھا۔ چین نے اقصائے چین کی بلندیوں پر سے سڑک گزار کر تبت کے شہر رتوگ کو سنکیانگ کے شہر مزار سے ملا دیا ہے۔ درہ قراقرم کے اس طرف سیاچن ہے جہاں کنٹرول لائن ختم ہوتی ہے۔ یاد رہے ’’سیاچن‘‘ چین سے منسوب نہیں بلکہ ’’سیاچن‘‘ کے معنی ہیں ’’جنگلی گلاب‘‘ جو یہاں موسم گرما میں برف پگھلنے پر اگتا ہے۔ (محسن فارانی، دارالسلام، لاہور۔ فون 37531107 )