ڈاکٹر فہمیدہ تبسم نے بیگم کلثوم نواز کی وفات پر ’’محترمہ کلثوم ریحانہ (کلثوم نواز) کے نام ‘‘ ایک نظم لکھی ہے جس کے اشعار پیش خدمت ہیں
ؔپردیس سے نکلیں ہوئیں جنت کو روانہ
ہائے وہ غم ہجر وہ ہجرت کا زمانہ
پابند قفس لوگ رہے آنکھ سے اوجھل
لے دید کی حسرت ہوئیں دنیا سے بگانہ
معصوم سی صورت پہ تھا مسکان کا غازہ
تہذیب میں اخلاق میں تو سب میں یگانہ
خائف تھا تیری جراتء کردار سے آمر
ہے یاد ہمیں تیری قیادت کا زمانہ
بے جرم و خطا قید کی فریاد سنانا
اللہ کے دربار میں کلثوم ریحانہ
ڈاکٹر فہمیدہ تبسم نے اپنی اس نظم میں بیگم کلثوم نواز کی شخصیت کی تصویر کشی کی ہے انہوں نے میاں نواز شریف کی شخصیت پر بڑی نظمیں کہی ہیں لیکن جوں ہی انہیں بیگم کلثوم نواز کی رحلت کا علم ہوا تو انہوں نے جذبات و احساسات کو اپنی نظم میں سمو دیا ۔ بیگم کلثوم نواز سے مجھے اس لئے بھی انس تھا کہ میری مرحومہ بہن بھی ان کی ہم نام تھیں۔ اس دنیامیں جو بھی شخص آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے لیکن جن حالات میں بیگم کلثوم نواز ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں اس پر بار بار رونا آیا ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ایسا محسوس ہوا جیسے میری بہن کلثوم بیگم دوسری بار ہمیں روتا چھوڑ کر چلی گئی ہیں مجھے بیگم کلثوم کے بارے میں کچھ لکھنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا ۔ 12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی‘‘ مارشل لاء نے میرا ان سے پہلا تعارف کرایا جب جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کو پابند سلاسل کر دیا تو یہ بہادر خاتون مارشل لائی نظام کے خلاف ’’علم بغاوت‘‘ بلندکر نے کے لئے ماڈل ٹائون لاہور سے نکلیں ۔12گھنٹے تک اس بہادر خاتون کی گاڑی کو کرین کے ذریعے فضا میں معلق رکھا گیالیکن آمر مطلق اسے خوفزدہ نہ کر سکا انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مارشل لاء کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا اور اے آر ڈی بنا دی وہ لاہور سے جمہوریت کا پرچم لے کر شہر شہر نکلیں تو گوجرخان میں ان کا پڑائو چوہدری محمد ریاض کی رہائش گاہ پر ہوا ۔ مسلم لیگ ہائوس اقبال روڈ پر سردار نسیم نے ان کا استقبال کیا ۔ وحید محفوظ نے ان کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے روح رواں نے بیگم کلثوم نواز کو اپنی رہائش گاہ پر ناشتہ دیا بیگم کلثوم نواز کو ’’ دانیال ہائوس ‘‘ میں مدعو کرنے کے ’’جرم ‘‘ میں چوہدری تنویر خان کو جیل میں ڈال دیا گیا دانیال ہائوس میں 10ہزار کے اجتماع نے چند قدم پرآرمی ہائوس میں مقیم جنرل پرویز مشرف کو مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت سے خوف زدہ کر دیا سینیٹر چوہدری تنویر خان کو آمریت کو للکارنے کے’’ جرم‘‘ میں کم و بیش دو سال تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
پاکستان کی سیاسی زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کا مقابلہ کر کے لوگوں کے دلوں سے آمریت کا خوف نکال دیا ۔ بیگم نصرت بھٹو نے اس وقت جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کا مقابلہ کیا جب شیخ محمد رشید ، طالب المولیٰ،شیخ رفیق اور فاروق لغاری کے سوا پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام ارکان نے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ چھوڑ دیا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاسست میں قدم رکھا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن جنرل پرویز مشرف کے جابرانہ دور میں جام شہادت نوش کرکے ملکی سیاست میں امر ہو گئیں ۔ بیگم کلثوم نواز نے جس طرح ’’پرویزی مارشل لا‘‘ کا مقابلہ کیا وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ ہے جب یہ بہادر خاتون کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں تو ظالمانہ منفی سیاسی سوچ رکھنے والوں کے بے رحم ریمارکس اس کی جلد موت کا باعث بن گئے زندگی کے آخری لمحات میں نواز شریف اور مریم نواز کو ان کے پاس ہونا چاہیے تھا لیکن وقت کے جبر نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں اکیلا ہسپتال میں چھوڑ کر پابند سلاسل ہونے پر مجبور کر دیا ۔ عدالتی فیصلہ کے بعد ان کے پاس اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کے سوا کوئی گنجائش نہیں تھی پاکستان کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص جس تکلیف دہ حالت میں اپنی رفیقہ حیات کو ہسپتال چھوڑ کر آیا اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے الوداع کہتے ہوئے کہے ’’ذرا آنکھیں کھولو ۔ کلثوم ۔ بائوجی کلثوم بائوجی‘‘ کلثوم نے آنکھیں نہ کھولیں اس کا’’ بائوجی ‘‘ سج دھج سے جیل چلا گیا ۔ کچھ دن قبل کلثوم نواز نے آنکھیں کھول دیں تو اپنے ’’بائوجی‘‘ کے بارے میں دریافت کیا ۔ اس دوران میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ایک ایسے ٹیلی فون کے ذریعے بات کرنے کی اجازت مل گئی جس کا پاکستانی کنکشن تھا کیونکہ ان کو غیر ملکی موبائل کنکشن پر بات کرنے کی راہ میں قانون حائل تھا میاں نواز شریف اور مریم نواز کی بیگم کلثوم نواز سے مختصر بات چیت ہوتی تھی بیگم کلثوم نواز زیادہ باتیں بھی نہ کر سکتی تھیں لیکن وہ اس بات کا تقاضا ضرور کرتیں کہ ان کی ’’بائوجی‘‘ سے وڈیو کال پر بات کیوں نہیں کرائی جاتی انہیں آخری وقت تک اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس کا ’’بائوجی‘‘جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
مجھے آج تک یہ صدمہ ہے میں اپنی ماں کے آخری لمحات میں ان کے پاس موجود نہ تھا یہی حالت میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ہے میری میاں نواز شریف سے کم وبیش35سال سے قریبی رفاقت ہے میں نے نواز شریف کو کبھی اتنا کمزور نہیں پایا جتنا اڈیالہ جیل میں بیگم کلثوم نواز کی وفات کے وقت دیکھا ۔وہ وقت کے جابر حکمرانوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ جرات و استقامت کا کوہ ہمالیہ نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، نواز شریف کی زندگی میں جب بھی مشکل لمحات آئے بیگم کلثوم نواز بہادر خاتون کی طرح ان کی پشت پر کھڑی نظر آئیں میاں نواز شریف سے ایام اقتدار میں کم کم ملاقات ہوا کرتی تھی لیکن جب بھی ملاقات ہوتی وہ مجھ سے بیگم کلثوم نواز کے حوالے سے ضرور گفتگو کرتے ۔ میں سکھر میں موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ان کے ہمراہ طیارے میں جا رہا تھا تو انہوں بتایا کہ ’’کلثوم نواز آپ کے اکثر کالم مجھے پڑھ کر سناتی ہیں ۔‘‘ میں اپنے اکثر کالموں میں مریم نواز کو ان کا سیاسی جانشین بنانے پر زور دیتا تھا بیگم کلثوم نواز مریم نواز کو میدان سیاست میں اتارنے کے لئے میاں نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کرتی تھیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ میاں نواز شریف ان کی طرح کے پرانے خیالات کے مالک ہیں وہ اپنی بیٹی کو سیاست میں لانے کے لئے تیار نہ تھے انہوں نے میاں صاحب کومشورہ دیا کہ وہ پارٹی کے ہونے والے اجلاسوں میں مریم نواز کو اپنی کرسی کے پیچھے بٹھایا کریںآہستہ آہستہ اس میں سیاست کی سوجھ بوجھ بڑھ جائے گی لیکن چوہدری نثار علی خان ، نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت قبول کرنے کے لئے تیار تو تھے لیکن مریم نواز کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے سے انکار کر دیا حالانکہ کسی نے ان سے اس بات کا تقاضا نہیں کیا وہ وقت نے ثابت کر دیا کہ اس میں میاں نواز شریف کا سیاسی جانشین بننے کی بھرپور صلاحیتیں ہیں افسوس ناک بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے راستے جدا ہو گئے ۔ میں نوجوان صحافی طارق عزیز اور مسلم لیگی رہنما چوہدری جمیل آف گوجرخان جو احتساب کورٹ میں ہر پیشی پر نواز شریف کے ساتھ موجود ہوتے ہیںان کے ساتھ جاتی امرا میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر موجود تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ لندن میں بیگم کلثوم نواز کا جنازہ پڑھنے والوں میں چوہدری نثار علی خان بھی موجود تھے چوہدری نثار علی خان نے جنازہ میں شرکت کرکے شریف خاندان سے اپنے ذاتی تعلق کو مزید مضبوط بنایا ہے کچھ ’’مہربانوں ‘‘ نے نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان جو دیوار تعمیر کی ہے اسے بیگم کلثوم نواز کی موت نے گرا دیا ہے ۔
10دسمبر1999ء کی سرد رات مجھے یاد ہے جب جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان کو سعودی عرب جلا وطن کیا اس موقع پر بیگم کلثوم نواز نے ایف10کی رہائش گاہ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے تاریخی جملے کہے’’ ہم اپنی خوشی سے یہ ملک نہیں چھوڑ رہے ہمیں نکالا جا رہا ہے، لیکن ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہم جہاں جا رہے وہاں ہم اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں گے‘‘ ان کا ایک ایک لفظ آج بھی یاد ہے ۔مجھے بیگم کلثوم نواز کے جلسوں اور پریس کانفرنوں کی کوریج کا اعزاز حاصل رہا ہے وہ اردو ادب پر عبور رکھتی تھیں شاعرانہ مزاج بھی تھا وہ میاں نواز شریف کی تقاریر کے لئے اچھے اشعار کا انتخاب بھی کیا کرتی تھیں جلاوطنی کے ایام میں اوبرائے ہوٹل میں میاں نواز شریف نے میرا بیگم کلثوم نواز سے تعارف کرانے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ’’میں تو نواز رضا کو عرصہ سے جانتی ہوں ان کے کالم پڑھتی ہوں ‘‘ میاں صاحب کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ’’ پھر تو میرا تعاف کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ‘‘ سرور پیلس میں میاں نواز شریف نے پاکستان سے آئے ہوئے صحافیوں سے میری درخواست پر ملاقات کی اس موقع پر صحافیوں کی بیگمات سے الگ ملاقات کے موقع پر بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز نے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ ’’آپ میں بیگم نواز رضا کون ہیں ؟‘‘ انہوں نے میری اہلیہ کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا وہ آج بھی مجھے یاد ہیں ۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز ’’ضمیر کے قیدی‘‘ ہیں ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا ہے لیکن انہیں لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا آج بیگم کلثوم نواز ہم میں موجود نہیں لیکن ان کا شاندار سیاسی کیرئیر خواتین کے لئے جرات و استقامت کا باعث بنا رہے گا کلثوم نواز کا ’’بائوجی ‘‘ لاکھوں عوام میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرے گا ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024