وزیر اعظم سے چند گزارشات
مکرمی :اس جدید دور میں دھرتی قاضیاں میں 1867میں قائم ہونا والا تعلیمی ادارہ جو 1927مڈل ہوا اور بعد ازاں 1951میں ہائی سکول بنا 21کنال کا وسیع رقبہ رکھنے اور ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود آج تک ہائرسیکنڈری کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔ یہاں بہترین اضافی بلڈنگ موجود ہے جہاں ایف اے، ایف ایس سی کی کلاسسز کا اجراء کیا جا سکتا ہے ۔ عرصہ بعد بیول اور جبر میں قائم ہونے والے سکولوں کو ہائر سیکنڈری کا درجہ مل گیا بدقسمتی سے گورنمنٹ ہائی سکول قاضیاں جو اپنے تعلیمی معیار کی وجہ سے شرقی گوجرخان میں اپنی مثال آپ ہے وہ ہاپ گریڈ نہ ہو سکا۔ تاریخ گواہ ہے یہاں سے تعلیم پانے والے طلباء بڑے مقام اور منصب پر پہنچ کر قومی خدمت کر رہے ہیں ۔ سابقہ ادوار میں جب بھی قاضیاں میں لڑکیوں کے قیام کیلئے مطالبہ کیا گیا تو ہر دور کے منتخب نمائندے سے یہی جواب ملا کہ کوئی زمین عطیہ کردے تو کالج کی منظوری کے لئے کوشش کی جا سکتی ہے ؟ ماضی میں اربوں روپے اورنج ٹرین جیسے پروجیکٹ پر پھونک دیئے گئے اور پنجاب کا بجٹ صرف لاہور پر لگا دیا ۔ کیا درسگاہ کے لئے دس کنال زمین لینا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔ افسوس ان 150سال کے دوران بے شمار قومی و صوبائی اسمبلی ، ضلعی ممبر، یونین کونسل کے چیئرمین ، وائس چیئرمین منتخب ہو تے رہے ہیں لیکن یہ دیرینہ مسائل اوجھل رہا۔ کپتان صاحب 22سال کی طویل سیاسی جد و جہد کے بعد آپ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچے ہیں اور آج جس طرح 22کروڑ عوام کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں اسی طرح اہل یونین کونسل قاضیاں توقع کرتے ہیں جو ہمارادیرینہ مسئلہ گورنمنٹ ہائی سکول قاضیاں کو ماضی میں ہائرسکینڈری سکول کا درجہ نہیں مل سکا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی پیش رفت ہو سکی۔ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ کے دور میں ہمیں یہ تحفہ ضرور ملے گا کیونکہ بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرنا آپ کے بنیادی منشور میں شامل ہے۔ میں اپنے خون سے خط لکھ کر آپ تک ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر تعلیم تک صدا پہنچا چکا ہوں (راجہ احسان الحق 0300-5261181گوجر خان)