میں اس کو لاکھ ستائوں مگر وہ ماں ہے مری
’’ تحیُّر‘‘ عبدالرحمان واصفؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو حال ہی میں منصہ شہود پہ آیا ہے۔ تحیر کی شاعری سرائے حیرت ہے جہاں محض چند ساعتوں کا قصدِ قیام عمر بیت جانے کے خواب میں ڈھل جاتا ہے اور تحیرات کے نت نئے دروا ہونے پہ ، واصف کاوصف کھل کر سامنے آتا ہے۔ واصف مصرع ترکہنے کا وصف رکھتا ہے۔ وہ انسان کے اس وصف سے بھی آشنا ہے جس کے سبب وہ انفرادیت و عظمت کا پیکرا ٹھہرا، جو بلاشبہ احساس کا مرقع ہے۔واصف زمیں سے زمیں زاد کے تعلق کو جانتا ہے ، زمیں زاد کے مصرعے زمیں سے جڑے ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ وہ ان احساسات کو نوک قلم پر لاتا ہے جو زمیں زاد کی آبیاری کرتے ہیں۔ اس آبیاری میں محبت کے عمل اور اس کے تقاضوں کا بھی واصف کو بخوبی ادراک ہے:
تکرار لفظی ، تضاد ، حسن تعلیل ، مراعاۃ النظیر، اور لف و نشر میں سینچے بے مثل مصرعے ، واصفؔ کی ذہانت اور فکری ایچ کا پتا دیتے ہیں۔ تاریخ سے دامن گیر تلمیحات واصف کی علمی استعداد کو بیان کرتی ہیں۔ فنی مہارتیں ان کے مصرعوں کو ہر گز بوجھل نہیں کرتیں بلکہ فکری رسا کی آمیزش سے مصرعے معطر ہو جاتے ہیں۔ الفاظ کویہ خوشبو ، واصف کے سامنے مئودب ہونے پہ عطا ہوئی ہے۔واصف وحشت کے ہاتھ باندھنے ، اداسی کا منہ نوچنے اور تتلیوں کے شکستہ پر سے اداسی کا نوحہ لکھنے کے آرزو مند ہیں۔ ہجر ، درد ، چاند ، چاندنی، صحرا ، صحرانورد ، قافلہ ورہبر ، بادل و بارش ، درخت ، سایہ ، چراغ اور لَو ایسے استعاروں سے واصفؔ نے رومانویت سے بھرپور مصرعے کہے ہیں۔ مصرعے ہیں کہ احساسات کا انبوہ ہیں، جن میں امید ، انتظار اور تڑپ کی کشش نے دنیائے شعر میں مدوجزر پیدا کئے ہیں :
؎ اک انتظار میں قائم ہے اس چراغ کی لَو
اک اہتمام میں کمرے کا در کھلا ہوا ہے
صاف گوئی ، بے باکی و برجستگی واصفؔ کے شعری اوصاف ہیں۔ ان کے مصرعوں سے استقامت اور سچ ٹپکتا ہے۔ قلم کسی مصلحت کی نذر نہیں ہوتا بلکہ حق کی خاطر ، روایت سے انحراف کی جرات سے بہرہ ور ہے۔ واصفؔ خودداری کا مدرس اور مبلغ ہے۔ خودی اور خودداری سے تراشے مصرعوں کی جھلک ملاحظہ کیجئے:
؎ میرے لہو میں دوڑ رہا ہے حلال رزق
مت سوچنا ،ضمیر کا سودا کروں گا میں
احساسات ، محسوسات ، خوبصورت تشبیہات اور گہرے مشاہدے سے مزین مصرعے ، حقیقت میں سہل ممتنع کی شاعری کا عکاس اور اس کی آبرو ہیں۔ واصفؔ کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ لفظ کے وجود میں احساس کی روح پھونکتا ہے۔ الفاظ میں جان پڑ تی ہے تو وہ بہ زبانِ واصفؔ ’کنکریوں‘ کی مانند گویا ہو جاتے ہیں۔ الفاظ کی دھڑکن احساسات میں مسلسل دھڑکتے چلی جاتی ہے۔واصفؔ کے لفظوں میں جب ممتا کے احساس کی روح پڑتی ہے تو الفاظ کا وجود وجد میں آ جاتا ہے اور درج ذیل اشعار صفحہ قرطاس پہ رقم ہوتے ہیں:
؎ میں اس کو لاکھ ستائوں مگر وہ ماں ہے مری
وہ میرے حق میں کبھی بددعا نہیں کرے گی
؎ کشاں کشاں چلی جائے گی ساتھ دوزخ میں
پہ اپنے بچوں کو خود سے جدا نہیں کرے گی
دنیا کی تہ در تہ وسعتوں کاا نکشاف ، آگہی و ادراک کی آرزو ، اور اپنے تن من کو ودیعت کردہ صلاحیتوں سے بہرہ ور عبدالرحمان واصفؔ نے نسل نو کو شعری لفظیات اور اخلاقیات کی آگہی سمیت زمانہ حال میں رہتے ہوئے ماضی کے خمیر سے مستقبل کا زائچہ کھینچنے کی خُو عطا کی ہے جس سے آئندہ بھی ادراک کے کئی درواہوں گے۔ ان کا اسلوب ، زبان و بیان اور فکرونظر کاوجود ، دنیائے شعر و ادب میں تا ابد قائم رہے گا۔