پیسہ جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے
نئے پاکستان کا علم اٹھائے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں روزانہ6ارب سود جا رہا ہے۔ گورننس ٹھیک کرنے میں 2سال لگیں گے۔ یہ تو بیرون ملک پاکستانیوں کے دلوں میں جذبۂ حب الوطنی اور قیادت پر بھروسہ ہے کہ ڈالروں کی بارش شروع ہو گئی ہے۔ چندے سے شوکت خانم جیسا مثالی ہسپتال بن گیا ایدھی ٹرسٹ نے بے مثال کارنامے انجام دیئے تو چیف جسٹس اور وزیراعظم چندے سے دیا میربھاشا اور مہمند ڈیم بنا کر مثال قائم کریں گے جس گھر میں پیسہ نہ ہو وہاں ناچاقی پیدا ہوتی ہے یہ حوصلہ افزا کوششیں ہیں کہ بڑے قبضہ گروپوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں 100ارب کی زمین چھڑائی ہے اب لاہور کی باری ہے جہاں محکمہ اوقاف متروکہ وقف املاک اور ریلوے کی وسیع اراضی پر قبضہ ہے۔ وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوس سمیت15عالیشان عمارتوں کی ہیئت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ اسراف کے زمرے میں آنے والے اثاثے بیچے جا رہے ہیں۔ پیسہ ہوگا تو گھر چلے گا تاہم بات 100دن سے آگے 2سال تک جا پہنچی ہے جیسے ضیاء الحق کے 90دن 11سال میں بدل گئے تھے۔
پاکستان کو 3ماہ میں اڑھائی ارب ڈالرز کے قرضے واپس کرنا ہوں گے۔ حرام سود کی مد میں ضائع ہونے والے 6ارب یومیہ سے تو پاکستان کے ہر ضلع میں شوکت خانم جیسا ہسپتال بن سکتا ہے۔ لاہور میں ریلوے کے میوگارڈن کی فروخت سے کئی نئے ریلوے ٹریک اور ٹرینیں شروع کی جا سکتی ہیں۔ ملک چلانے کیلئے پیسہ جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔ مجبوری میں پرانے سود خور آئی ایم ایف کے پاس بھی حاضری دیئے بغیر گزارہ مشکل دکھائی دیتا ہے‘ اسد عمر درختوں سے تو پیسے نہیں جھاڑ سکتے۔ فی الحال تو بجلی مہنگی ہوئی ہے نہ گیس لیکن مستقبل کیلئے ضمانت نہیں دی گئی کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں جوں کی توں رہیں گی۔ اکانومی کے بارے عوام کو سچ بتانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ سابق حکومتوں کے کرتوت کارستانیاں سامنے لائی جا سکیں۔ ہر حکومت اپنے بارے میں آدھا کم اور گزرے لوگوں کے بارے میں پورا سچ بولتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریسی کو بہت سی یقین دہانیاں کرائی ہیں کہ احتساب کے نام پر ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی ان کی تنخواہوں کو پرکشش بنایا جائے گا۔1935ء میں ایک کمشنر کی تنخواہ اتنی تھی کہ وہ 70تولے سونا خرید سکتا تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی تحریک کے دوران عام آدمی کو بھی یقین دہانی کرائی تھی جسے پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ زمینی حقائق ہر روز سامنے لائے جا رہے ہیں۔ فضول خرچیوں کا چرچا ہو رہا ہے۔ بچہ بچہ جان چکا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم ہائوس اور اس کے 534ملازموں، 100مہنگی گاڑیوں، 4ہیلی کاپٹروں اور 5بھینسوں سے کوئی سروکار نہیں انہیں دکھ ہے کہ دور غلامی کی یادگاروں کو سینے سے لگائے رکھا گیا۔
ہر سطح کے پولیس افسر کو پابند کیا جائے کہ وہ بلا روک ٹوک عوام کو اپنے قریب آنے دے۔ تھانوں میں کھلی کچہری لگائے محلوں، گلیوں میں جا کر عوام سے جرائم کے بارے میں معلومات حاصل کرے کہ ہر علاقے میں بدمعاشی، منشیات جوئے شراب نوشی عصمت فروشی کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بازاروں اور منڈیوں میں تھوک اور پرچون فروشوں کے بارے عوام سے معلومات لیں کہ مہنگائی کے کیا اسباب ہیں۔ بیورو کریسی کی تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں کی مرہون منت ہوتی ہیں اور سیاستدانوں کا اسمبلیوں میں بیٹھنا اور پھر وزیر اور وزیراعظم بننا عوام کے ووٹوں کا رہین منت ہوتا ہے۔ فوج اور عوام ایک ہیں تو اس کا مطلب ہے پاکستان کی فوج چھ لاکھ جوانوں پر نہیں 22کروڑ عوام پر مشتمل ہے۔ یہی رعب دشمن کیلئے کافی ہے۔ تباہ حال اور کرپٹ سول سروس کو دوبارہ دنیا کی بہترین سول سروس میں بدلنے کیلئے لائحہ عمل بنایا جا رہا ہے یہ کتنی غیر منطقی بات ہے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر سی ایس ایس کے بعد ایس ایس پی کے عہدے پر تعینات ہو جائے‘ مذہبی امور کا سیکرٹری چوٹی کا عالم دین ہونے کی بجائے غیر عالم دین ہو‘ اسی طرح کمال کے پروفیسروں کی موجودگی میں سیکرٹری ایجوکیشن بھی وہ شخص ہوتا ہے جس کا تعلیمی دنیا میں رہنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اقتصادی امور پلاننگ اور خزانہ کیلئے فارن کوالیفائیڈ لوگوں کو مامور کیا جانا چاہئے۔ مضامین کی تخصیص اور ڈگریاں کس لئے ہوتی ہیں ہر محکمے اور ہر وزارت کیلئے سول سروس کا علیحدہ امتحان ہو۔ ڈاکٹر عشرت حسین اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں ان کے پاس مطلوبہ ڈگری تجربہ اور اہلیت تھی اس لئے گورنر سٹیٹ بینک بنائے گئے تھے۔ سیکرٹری ہیلتھ کیوں نہ کوئی قابل ترین نامور ڈاکٹر ہو جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد وزیر صحت ہیں اور اسد عمر وزیر خزانہ ہیں۔ گورنر ہائوسوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں یہ تاریخی ورثے میں کوئی ان کا مکیں رہے یا نہ رہے انہیں مسمار کر دینا ان کا تشخص مٹا دینا درست نہیں۔ مال روڈ پر انگریز دور کی عمارتیں قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہیں اورنج لائن نے ہر جگہ ٹانگ اڑا کر لکشمی چوک کی بیوٹی کو خراب کیا۔ بیرون شالا مار باغ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کوئی مغلیہ دور کی جگہ ہے جیسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کا چہرہ ہر راہ گیر کو دکھائی دیتا ہے۔وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہونا ہے۔لاہور میں سول سیکرٹریٹ بھیڑ بھاڑ میں گھر چکا ہے‘ اسے وحدت کالونی میں واقع گورنمنٹ کوارٹرز کالونی جو وسیع ایریا ہے منتقل کیا جا سکتا ہے اسی طرح میوگارڈن کو پاکستان ریلویز یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سینٹرل ماڈل سکول لوئر مال تاریخی سکول تھا جس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ گرائونڈ میں نئے کلاس روم تعمیر کئے گئے بینک آف پنجاب کو جگہ دی گئی پنجاب میں سرکاری محکمے اور ادارے جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ مہنگی عمارتوں میں کرایہ دار ہیں تمام محکموں کو ایک چھت تلے لانے کیلئے وحدت کالونی کا علاقہ موزوں ترین ہے۔ تبدیلی کا دور شروع ہوا ہے تو تبدیلی ہر سو دکھائی دینی چاہئے۔ ایوان عدل کی سیڑھیاں اترتے چڑھتے عمر گزارنے والوں کیلئے خوش خبری کہ دیوانی مقدمات 90دن میں نمٹائے جائیں گے۔ نیب کو بھی چاہئے عام شہری کی درخواست پر صرف وصولی کا خط بھیجنے کی بجائے داد رسی کیلئے عملاً کارروائی کرے۔ انگریزوں کے زمانے کے قوانین سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے نیا سول پروسیجر کوڈ بھی آ جائے گا۔
نیا پاکستان بنانے کا عزم رکھنے والی قیادت کے بعض فیصلے اور اقدامات بظاہر ناممکن دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوس، اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کی ساخت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ سادگی بچت کفایت شعاری کی شروعات کہیں سے تو کرتی تھیں‘ گھر کے اخراجات جہاں جہاں سے کم کرنا ممکن ہوں کئے جاتے ہیں تاکہ قرضوں سے بچا جا سکے۔ نیب اور ایف آئی اے کرپشن کی شکایات تحقیقات واقعات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع کر سکتی ہے جیسے پاناما کیں میں جے آئی ٹی رپورٹ 10جلدوں پر مشتمل تھی اور اب جعلی اکائونٹس جے آئی ٹی کے والیم بھی چند ماہ بعد منظر عام پر آ جائیں گے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں 47ہزار سیاسی بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ بے نظیر زرداری دورکار وزیراعظم ہائوس اصطبل اور عہد شریف میں ساہی وال کی آٹھ تنو مند بھینسوں چار ہیلی کاپٹروں اور ایک سو دو گاڑیوں کے حوالے سے شہرت پا گیا۔ امانت دیانت اور صداقت کا سبق صرف درسی کتابوں میں رہ گیا ہے۔