پیر ‘ 6؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 17؍ ستمبر 2018ء
عبداللہ عبداللہ کی شاہ محمود قریشی کو انگور بھجوانے
اور آم کھانے کی خواہش
پاکستانی وزیر خارجہ کا مختصر دورہ افغانستان جس خوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوا وہ خوش آئند ہے۔ افغانستان کی نجانے کیوں ایک عادت سی ہے کہ جب ان کا وفد پاکستان آتا ہے یاجب پاکستان کا وفد افغانستان جاتا ہے تو افغان صدر سے لے کر وزراء تک کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ مگر جیسے ہی یہی لوگ بھارت جائیں یا بھارت سے کوئی افغانستان آئے وہی محبت کے پھول برسانے والی زبانیں آگ اگلتی نظر آتی ہیں۔ خدا جانے یہ دوعملی کیوں افغان حکمرانوں میں رچ بس گئی ہے۔ دنیا کے نقشے پر یہ دو برادر اسلامی ملک ہیں۔ جہاں لاکھوں علماء اور واعظ دن رات اخوت اور اسلامی امہ کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ افغانستان سے لاکھوں مہاجر پاکستان میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ان کے ہزاروں طلبہ پاکستانی مدارس اور کالجز سے پڑھ لکھ کر گئے ہیں۔ مگر وہاں کے حکمرانوں اور لوگوں کے دل ابھی تک نہیں بدلے۔ بہرحال اب پاکستانی وزیر خارجہ نے کابل میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کے دوران افغان انگوروں کی شیرینی اور حلاوت کا ذکر کیا ،شکر ہے بات یہاں تک رہی آگے بڑھتے بڑھتے بنت انگور تک نہ گئی۔ تو عبداللہ صاحب نے قریشی صاحب کو انگور کا تحفہ بھیجنے کا اعلان کیا اور افغان چیف ایگزیکٹو نے ملتان کے شہرہ آفاق آموں کا ذکر کیا اور ان کی تعریف کی تو قریشی صاحب نے آموں کا تحفہ دینے کا اعلان کیا۔ یوں اس خوشگوار دوستی کے ماحول میں سرکاری بات چیت بھی ہوتی رہی۔ خدا کرے یہ جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان نیم اور کریلے جیسی کڑواہٹ بھارت نے گھولی ہے انکو یہ انگور اور آم ختم کر کے اس کی جگہ پیار اور محبت کا میٹھا میٹھا رس گھول دیں تو ہمارے بیشتر مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے……
٭٭٭٭٭
سیالکوٹ میں پولیس کا رقص، راولپنڈی میں
ڈاکو پولیس کی گرفت سے فرار
خدا جانے پولیس کلچر تبدیل ہونے کا نعرہ کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ اب تو نئی حکومت نے پنجاب کا آئی جی تبدیل کر دیا ہے۔ سو دیکھتے ہیں وہ یہ کلچر تبدیل کرنے میں کب کامیاب ہوتے ہیں۔ ورنہ عوام کو کب سے :
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
تیری تلاش میں شاید بہار آج بھی ہے
کے منتظر ہیں فی الحال تو سیالکوٹ کے پولیس اہلکاروں کی نشہ میں دھت ہو کر رقاصہ پر نوٹ نچھاور کرتے ہوئے بدمستیاں کرتے ہوئے ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ شاید تبدیلی ابھی راستے میں ہے۔ یا پھر یہ کہ پولیس کلچر ہمیشہ کی طرح کسی بھی تبدیلی سے مبرا ہوتا ہے۔
یہ تو اخلاقی حالت ہے ذرا تربیتی حالت بھی دیکھ لیں۔ ہماری پولیس کی تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ راولپنڈی میں پولیس اہلکاروں نے دو ڈاکو پکڑے ان میں ایک کو گرفت میں لیا دوسرے کو موٹر سائیکل پکڑ کر ساتھ چلنے کا کہا۔ اب موٹرسائیکل والا پولیس سے تیز نکلا اس نے وہ کک ماری موٹرسائیکل کو سٹارٹ کر کے یہ جا وہ جا ایک پولیس والا پیچھے دوڑا پکڑنے کے لئے تو دوسرے نے فائرکھول دیا جو ڈاکو کی بجائے ساتھی پولیس والے کی ٹانگ میںجا لگا۔ یوں ڈاکو غائب اور پولیس والا ہسپتال پہنچ گیا۔ اب کوئی ذرا پولیس والوں کی فائرنگ کوالٹی ہی چیک کر لے تو پتہ چلے کہ کتنے مجاہدوں کو گولی چلانا ہی نہیں آتی۔ نشانہ لگانا تو دور کی بات ہے۔ ہاں جعلی پولیس مقابلوں میں البتہ یہ ٹھیک ٹھیک نشانہ لگاتے ہیں بندھے ہوئے شکار پر……
٭٭٭٭٭
بااثر افراد کا کورٹ میرج کرنے والے اور اس
کے بھائی کے ساتھ غیرانسانی سلوک
یہ واقعہ اگرچہ کبیروالا کا ہے مگر درحقیقت یہ ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جہاں آج بھی بااثر لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مرضی کے خلاف کسی بھی کام پر پنچائت و جرگہ کی آڑ میں کہیں بھی قابو میں آئے چنگل میں پھنسے لوگوں کو ایسی غیر انسانی سزائیں دیتے ہیں جن کا کہیں بھی کسی قانون میں ذکر نہیں۔ کبیروالا میں بھی پسند کی کورٹ میرج کرنے والے کے ساتھ ایسا ہی ہوا ۔ بیشک ہمارے معاشرے میں میں مادرپدر آزادی نہیں۔ سب سے بہتر شادی وہ ہے جہاں بابل کے گھر سے ڈولی نکلے۔ مگر یہ جو کیوپڈ ہے وہ بھی کم بخت مشرق میں آ کر کچھ زیادہ ہی نشانے لگاتا ہے۔ یہ عشق کے تیر نجانے کتنے دلوںکو گھائل کرتے ہیں۔ ان میں اکثر تو اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کر سو جاتے ہیں اور جہاں ماں باپ کہتے ہیں شادی کر لیتے ہیں۔ مگر کوئی کوئی
چلوکہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں
دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں
پر عمل کرتے کرئے چھپ کر لومیرج کرتے ہیں یا کورٹ میرج کرتے ہیں۔ اس کا خمیازہ پھر انہیں قتل یا ایسی وحشیانہ سزائوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ کبیروالا میں اس جدید دور کے رانجھے کو زمین پر تھوک کر اس پر ناک سے لکیریں نکلوائی گئیں۔ چھترول بھی کی گئی۔ کاش ہمارے بچے اور والدین مل کر ایسے مسائل کا کوئی ایسا حل نکالیں کہ بعد میں کچھ ا یسا نہ ہو اور عزت بھی رہ جائے تو معاشرہ جنت بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
20 کلو آٹے کا تھیلا 40 روپے کلو مہنگا ہو گیا
یہ نئی حکومت کے لئے ایک آزمائش ہے کیونکہ آٹا پورے ملک میں ایک بار پھر چار سو سناٹا پھیلانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ وہ بلا ہے جو ہر انسان کومتاثر کرتی ہے۔ کیونکہ جس کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے وہ اس کے چنگل میں پھنسا رہتا ہے۔ اب کوئی حبیب جالب ہوتا تو اس بارے میں کوئی نئی نظم لکھ کر بھوکے عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا۔ ڈیم بنانا لوٹی ہوئی دولت واپس لانا یہ سب کچھ حکومت غریب عوام اور ملک کی حالت بہتر بنانے کے لئے کر رہی ہے۔ اس کا فائدہ ضرور ہو گا مگر اس وقت مسئلہ غریبوں کی زندگی کا ہے۔ آٹا مہنگا ہونے سے غریب بھوکے رہ جاتے ہیں۔ روٹی نہ ملے تو ڈیم، بجلی، دولت ، جوانی یہ سب کچھ چھوٹی باتیں ہیں، کیونکہ غربت کفرکی طرف لے جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا۔ ارکان اسلام تو پانچ ہیں مگر چھٹا روٹی ہے۔ یہ نہ ہو توبندہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اسی دانہ گندم نے حضرت انسان کو جنت سے نکلوایا۔ اب یہی دانہ گندم اگر نہ ملے تو وہ دنیا میں حشر اٹھا دیتا ہے۔ یہ بغاوت، جرائم اور جنگ سب کی اصل وجہ یہی روٹی ہے۔ یہ نہ ہوتو سب باتیں کھوٹی ہیں۔ اس لئے وزیراعظم صاحب خدارا کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی کنٹرول کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ سب اقدامات کھوٹے ہونگے، کیونکہ پیٹ اور حضرت انسان سب سے پہلے روٹی مانگتا ہے…
٭٭٭٭٭