صحافت میر ا شوق تھا، طلبہ سیاست نے اس پر مہمیز کا کردار ادا کیا اورپھرپنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس دشت آبلہ پا میں داخل ہوا اوربائیس سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا ۔ملکی سیاست اور بیوروکریسی پر لکھنا ایک معمول بن چکا ہے مگر گزشتہ کئی روز سے ایک سکتے کے عالم میں ہوں خبر دینے کو جی چاہا نہ کالم پر دل آمادہ ہو رہا تھا ۔پانچ سالہ معصوم بچی ”س“ شائد میری اپنی بیٹی ہے ۔اس کے ساتھ جو ہوا وہ سب جان چکے ہیں مگر اس کے باوجود اس موضوع پر کچھ لکھتے ہاتھ کانپتے ہیں۔ میری اپنی چار بیٹیاں ہیں وہ گھر سے باہر ہوں تو میرے سے زیادہ انکی اماں کو فکر رہتی ہے۔ان کے دادا اور دادی ان کے آنے جانے کا پوچھتے ہیں۔ بچی گھر سے غائب ہوئی تو ہمیں کیوں پتہ نہ چلا،وہ معصوم تو شائد اپنے مجرموں کو پہچان بھی نہ سکے، کیا اس کو انصاف مل سکے گا ۔۔؟
ہم سب بھی تبصرے کر کے خاموش ہو جائیں گے، ایک بڑے اینکر کہ رہے تھے ایسے واقعات پوری دنیا میں ہو رہے ہیں ۔میں کہتا ہوں ہمارا معاشرہ تو باقی دنیا سے بہت جدا ہے۔ہم تو اس نبی کی امت ہیں جس نے بیٹی کو رحمت کہا ہے ۔کیا کوئی ایک پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ ایسا کرتا ہے، آسمان گرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے ہمارا معاشرہ اور ہم لوگ کیا کر رہے ہیں لاہور جو کہ پاکستان کا دل ہے ،یہاں ایک دل دہلا دینے والا سانحہ برپا ہو ا ایک پانچ سالہ بچی کیساتھ پانچ افراد کی زیادتی ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس پر انسانیت ہی نہیں درندگی بھی یقیناً شرمندہ ہوگی ۔
لاہور کے علاقے مغلپورہ میں معصوم بچی کے اغواءاور اس کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے مقامی ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر پھینک کر فرار ہونے کا واقعہ سب کے علم میں ہے اور دوسری طرف جب اس کے باپ اور چچا نے جب اس کی گمشدگی کے دوران مددکے لیے پولیس سے رابطہ کیاتو اس وقت پولیس نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ناکام واپس لوٹا دیا ،اسے کیا کہیںکیا پولیس والوں کی بیٹیاں نہیں ہوتیں۔ وہ تو بھلا ہو اس شخص کا جو بچی کو اٹھا کر ہسپتال لے آیا اور اسے ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائی گئی اور اب چونکہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اس انتہائی سفاکی اور درندگی کے واقعے پر فوری نوٹس لے لیا ہے اور اس واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس حوالے سے سب سے اہم کردار اس وقت ہم لوگوں کا اپنا ہوگا اہل علاقہ کو اس حوالے سے خود اپنی مدد آپ کے تحت تمام شواہد مہیا کرنے ہوں گے کیونکہ اس واقعہ میں درندگی کاشکار بچی کی عمر صرف پانچ سال ہے اور اپنی زندگی کے اس سانحے کے بعد پتہ نہیں وہ اپنے ملزموں کی شناخت میں کیا مددفراہم کرپائے گی اس لیے اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے میں انصاف کی مدد کریں۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد انصاف اور مدد فراہم کرنیوالے اداروں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے اور وہ افراد جو کہ ذمہ دار تھے بھول بیٹھے کہ وہ بھی ماں بہن بیٹی والے ہیں اور یہ بچی بھی ان کی ہی بیٹی ہے اور ان درندوں کو آزاد چھوڑنا معاشرے میں ایک ایسا ناسور پیداکرنے کے مترادف ہے جو کہ معاشرے کی بنیاد کو ہی ہلا کر رکھ دے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں رواں سال کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران زیادتی کے تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں سے اجتماعی زیادتی کے 32 واقعات بھی شامل ہیں اور ان مقدمات میں نامزد تقریباً سوادوسو ملزمان میں سے پولیس صرف 100کے قریب افراد کو گرفتار کرسکی ہے ۔ ان مقدمات میں سب سے زیادہ لاہور کے کینٹ ڈویژن میں درج ہوئے ہیں جن میں اجتماعی زیادتی کے 9±ؑ اور زیادتی کے 31 مقدمات درج کیے گئے دیکھنا یہ ہے کہ ان واقعات کی وجوہات کیا ہیں اور سب سے خطرناک رجحان یہ ہے کہ معصوم فرشتوں اور اللہ کی رحمتوں کو کیو ں اس درندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے درمیان بسنے والے انسان اس قدر درندہ صفت ثابت ہوتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو ”س“ ہی نہیں انسانیت کے ان مجرم درندوں کو سب کے سامنے لایا جائے اور انکے پس منظر پر تحقیق کی جائے تاکہ معاشرے کو اس قدر خوفناک درندوں سے بچایا جاسکے کیونکہ ایسی بربریت کی مثال تو جنگلوں میں بھی نہیں ملتی ۔ اور اس سے اہم یہ ہے کہ ہماری عدلیہ اس واقعہ میں کوئی کمیشن بناکر معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی بجائے اس پر فوری ایکشن لے اور ان مجرموں کو قرار واقعی ایسی سزا دی جائے کہ اس کی مثال قائم ہوجائے اور پھر کبھی بچی کی صورت میں انسانیت داغ دار نہ ہوسکے ۔
تاحال پولیس اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے اور بقول ڈی آئی جی آپریشنز رائے طاہر پولیس ملزمان کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماءاور صوبائی وزراءاور خصوصاً ایم این اے حمزہ شہباز سمیت سول سوسائٹی کے ممبران اور دیگر اہم شخصیات پانچ سالہ بچی کی عیادت کے لیے ہسپتال جاچکے ہیں اور ایک ایسا واقعہ جس پر شرم سے سب کا سر جھک جانا چاہیے مختلف لوگ روز جا کے اپنی سیاسی اور سماجی دکان چمکا رہے ہیں اور میڈیا میں بیانات دے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کالی وردی کے کچھ کالے دل والے لوگ جن میں ایک معطل اے ایس آئی بھی شامل ہے جو کہ رشوت لے کر ایسے معاملات میں بھی درندوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی نشان عبرت بنانا ضروری ہے ۔
دل کی بات یہ ہے کہ ہم سب بھائی ، باپ یا خاوند میں سے کچھ نا کچھ تو ہیں اور سب سے بڑھکر بچی ہماری اپنی بیٹی ہے اور بطورانسان ہمیں اس معاشرے کو ایسے درندوں سے پاک کرنا ہے اس وقت میڈیا نے اس واقعے کو جہاد سمجھ کر آگے بڑھایا ہے اس میں کچھ چیزیں شاید نا دکھائی جاتی توبہتر تھا لیکن اس تما م جدوجہد کا مقصد صرف بچی کی معصومیت کے قاتلوں کو سزا دلوانا ہی نہیں معاشرے کی بنیاد کی اصلاح بھی ہے تاکہ ہمیں اپنی بچیوں کو گھر سے باہر کھیلنے یا سکول بھیجنے کے لیے کوئی ڈر نہ ہوآج اس شہر سمیت ملک کے ہر علاقے میں ماں باپ سہمے ہوئے ہیں وہ اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجتے ڈرتے ہیں آئیں اور مل کے ایک ایسے مثالی معاشرے کی بنیاد ڈالیں جہاں پر آئندہ کوئی درندہ کسی ”س“ کو اپنی ہوس کا نشانہ نہ بنا سکے اور میرا ایمان ہے کہ اسکے مجرم ضرور گرفتار ہوں گے اور انہیں ایسی سزا ملے گی جو عبرت کا نمونہ بنے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38