شومئی قسمت سے پاکستان کی تاریخ کرپشن، لوٹ مار اور بددیانتی سے بھری پڑی ہے۔ بہت سے لوگ بینکوں سے اربوں کے قرضے لے کر ڈکار مار گئے اور ایک پائی بھی قومی خزانے میں واپس جمع نہیں کرائی گئی۔ قومی دولت باہر کے خزانوں میں منتقل کرائی گئی۔ ذاتی مفادات کی حرص میں قومی مفادات کو پس پشت ڈالا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان ایسے بہت سے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے جس میں بداعتدالیاں برتی گئیں یا فرائض دہی سے کوتاہی برتی گئی۔ کرپشن اور لوٹ مار سے متعلق بیسیوں کیسز پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کے پاس بھی ہیں۔ ایک ایسا ہی کیس ان کے پاس این ایل سی سے متعلق بھی ہے۔ اس کیس سے متعلق پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کو باقاعدہ انکوائری کروانے کا کہا گیا۔ سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمینٹ ڈویژن کی کورٹ آف انکوائری نے این ایل سی کے کسی عہدیدار کو خوردبرد یا مالی بے ضابطگیوںکا ذمہ دارقرار نہیں دیا بلکہ قواعد و ضوابط پر عملدرآمد پر ناکامی اور شفافیت کی کمی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یہ بات پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
بہرکیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بطور چیف آف آرمی سٹاف نومبر 2010 میں لیفٹینٹ جنرل رینک کے ایک افسر کی سربراہی میں حقائق معلوم کرنے کے لیئے ایک انکوائری کمیٹی مقرر کی۔ انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستان کی عسکری تاریخ کا ایک منفرد اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے این ایل سی کیس میں ملوث دو لیفٹیننٹ جنرلز اور ایک میجر جنرل جو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں کو آرمی ایکٹ کے تحت واپس بلایا ہے۔ جس سے بہرحال یہ تاثر خدانخواستہ نہیں جانا چاہیے کہ وہ فوجی افسران یا تو اپنی اپنی ملازمتوں پر بحال ہوئے ہیں یا ان کی خدمات دوبارہ حاصل کی گئی ہیں ایسا صرف مروجہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیئے کیا گیا ہے تاکہ ان میں سے جو مجرم پایا گیا اسے قانون کے مطابق کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جس طرح سے قومی اور ملی ایشوز کے حوالے سے ہمیشہ بصیرت افروز کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اس کیس میں انتہائی کھلے دل سے اس امر کا فیصلہ کیا کہ تینوں ریٹائرڈ جرنیلوں کو واپس بلا کر قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے موجودہ منتخب جمہوری حکومت بلکہ اسے بھی پہلے جس طرح سے عام انتخابات میں فوج کو بالکل علیحدہ رکھا اور قوم کے منتخب نمائندوں پر مبنی جمہوری حکومت کے تحت پنپنے والے جمہوری کلچر کی سپورٹ کی اس کی کم از کم پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی صرف اندرون ملک میں نہیں بلکہ خطے بھر میں امن کے خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سانحہ گیاری کے بعد یہ تجویز دی کہ سیاچن سے پاک بھارت دونوں ممالک کی افواج واپس چلی جائیں اور اس پر خرچ ہونے والے وسائل دونوں مما لک کی پسماندہ عوام کی ترقی کے لئے خرچ کیئے جائیں۔ خطہ جس قسم کی مشکلات اور سازشوں کا شکار ہے بلاشبہ ایسی سوچ ان مسائل کو حل کرنے کی جانب مثبت قدم ہے۔
یہ امر بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور انکوائری رپوٹ کی سفارشات کے بعد سے این ایل سی ایک انتہائی منافع بخش ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے ۔اس ادارے نے اس دوران نہ صرف یہ کہ اپنے ذمہ 9.3 ارب روپے کے قرضہ جات ادا کر دیئے ہیں بلکہ 2011-12 کے مالیاتی سال کے دوران 3 ارب روپے کا منافع بھی کمایا جو اس امر کی علامت ہے کہ این ایل سی جو ملک کے متعدد اہم ترقیاتی منصوبہ جات کی تکمیل میں کوشاں ہے ایک سود مند ادارے کے طور پر ابھرا ہے اور شاید پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی اتنے بڑے فنانشل کرائم کی رپورٹ سامنے آتے ہی اس پر موثر اقدامات سامنے آئے جو ایک قابل تحسین امر ہے۔
بہرطور بات ہو رہی تھی این ایل سی کیس کی تو حالانکہ سیکرٹری اینڈ پلاننگ ڈویژن کی رپورٹ میں یہ واضح کہا گیا کہ تینوں جنرل ذاتی طور پر مالی بے ضابطگی میں ملوث نہیں تھے۔ بہرحال کچھ ایسے معاملات ہیں جن میں قواعد و ضوابط پر عملدرآمد میں ناکامی دیکھی گئی ہے اور انہیں شفافیت کی کمی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود عسکری قیادت نے دیگر تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے تینوں جرنیلوں کو آرمی ایکٹ کے تحت واپس بلا لیا ہے۔ جس سے یہ ابہام بہرطور دور ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ فوج کے کسی سینئر سطح کے آفیسر سے کسی معاملے بارے پوچھا بھی نہیں جاسکتا۔یہ روایت عسکری سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ڈالی ہے جو اس امر کی علامت ہے کہ آئندہ بھی کسی چھوٹی یا بڑی پوسٹ پرتعینات کوئی بھی افسر یا اہلکار اگر کسی معاملے میں کسی بھی حوالے سے ملوث پایا گیا تو ان سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ عسکری قیادت کا یہ اقدام جہاں پاکستانی قوم کے لیئے باعث تقویت ہے وہاں دیگر اداروں کے لیئے بھی ایک مشعل راہ ہے کہ اگر ہر ہر ادارہ اپنے اپنے تئیں بے ضابطگیوں اور بداعتدالیوں کے مرتکب اہلکاران کے خلاف موثر تادیبی کارروائی عمل میں لائیں گے تو انشاءاﷲ وہ دن دور نہیں جب ملک سے کرپشن اور بے ضابطگیوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے قلع قمع ہوجائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024