نوٹ:یہ مضمون ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین کی 59 ویں سالگرہ کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔
معاشرے میں موجود ناہمواریوں کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں کا ایک کردار رہا ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ان ناہمواریوں کے خاتمے کے لےے مختلف تصورات اور طریقہ ہائے سیاست دنیا میں رائج ہیں۔ اس میں نظریات کے اعتبار سے کمیونزم، سوشلزم، سیکولرزم اور دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے نظریات ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں۔ سب کا مطمع نظر بنیادی طور پر معاشرے میں انصاف، عدل اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مشتمل نظام کا قیام ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقہ ہائے سیاست استعمال کیے جاتے ہیں۔ کہیں مذہب کو اس کے لیے ہتھیار بنایاجاتا ہے تو کہیں سماجی نظریات کو ۔ انہی رجحانات کے دوران انسان نے جمہوریت کا ارتقائی سفر طے کیا اور ایک جمہوری نظام تخلیق پایا جو دوطرح سے زمانے میں وجود رکھتا ہے۔ کہیں پارلیمانی نظام سیاست ہے تو کہیں صدارتی طرز حکومت۔ دونوں نظام جمہوری اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اپنے قیام کے بعد ان دونوں میں سے کوئی بھی نظام اختیار کرنے میں ناکام رہا اور بانیان پاکستان کی دنیا سے رحلت کے بعد طالع آزماﺅں نے اس ملک پر قبضہ کیا اور ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو استعمال کرکے اقتدار پر اپنے خونی پنجوں کی گرفت مضبوط کی۔
بالکل اسی طرح جب 1977ءمیں جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا اور ایک طالع آزما نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت کی حزب اختلاف نے اس ناجائز قبضے کو تسلیم کیا اور تمام جماعتوں نے اپنے آپ کو ڈرائنگ روم تک محدود کر لیا اور قیادت کا ایک ایسا خلا پیدا ہوا کہ عوام میں موجود محرومیاں مزید شدت اختیار کرنے لگیں۔ ایسے میں ایک ایسی سوچ اور نظریہ سامنے آیا جو ایک نسبتاً جواں سال نوجوان نے پیش کیا اور یہ نظریہ تھا کہ اگر اپنے مسائل کو حل کرنا ہے تو ایسے لوگوں کو منتخب کیاجائے جو ان محروم طبقات میں سے ہوں۔ مسائل کا ادراک رکھتے ہوں اور وہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تب کہیں جا کر محروم طبقات کو ان کے حقوق دلائے جا سکتے ہیں۔ صرف یہ تصور پیش نہیں کیا بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور متحرک سیاسی جماعت کا ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا حصہ ملایا۔ نوجوان، بوڑھے، خواتین، صنعتکار، تاجر اور مزدور، ان تمام لوگوں نے اس سوچ اور نظریے کی تائید کی جس کے بعد چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ 1987ءکے بلدیاتی انتخابات کے بعد اس جواں سوچ کے باعزم اور حوصلہ مند نمائندوں نے اپنے علاقوں کا نقشہ تبدیل کردیا اور وہ سفر جو صدیوں میں طے ہوتا محسوس ہوتا تھا، چند برسوں میں عبور کرکے دکھا دیا۔ مجموعی طور پر اس سوچ اور نظریے کو الفاظ کے کوزے میں بند کرنے کی کوشش کروں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ نظریہ صرف اور صرف ”سماجی انصاف “ کے حصول کے لیے سامنے آیا۔ اسی بنیا د پر میں انتہائی فخر کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ میری قیادت کایہ امتیاز ہے کہ اس نے دنیا کو ایک نئی سوچ اور ایک نئے نظریے سے متعارف کروایا۔ نہ صرف ایسا قابل عمل نظر یہ پیش کیا بلکہ اسے اپنی ولولہ انگیز قیادت سے عملی طور پر ثابت بھی کیا۔
کمیونزم ہو یا سوشلزم، اس کو اختیار کرنے والے کئی ممالک ہمارے سامنے موجود ہیں اور اس میں بہت سی ایسی قیادت موجود ہے جو اس سوچ کی حامل ہے لیکن انہوں نے کسی کے دئیے ہوئے نظریے کو اختیار کیا ہے لیکن میری قیادت کا یہ فخر ہے کہ اس نے ہمیں ایک نئے نظریے سے روشناس کرایا۔ ایک نئی سیاسی سوچ دے کر ایک قابل عمل راستے سے آشنا کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کا کلیہ دیا۔ اسی بنیا د پر میں اپنے قائد ، قائد تحریک الطاف حسین کو نظرےہ دےنے والا (Idea Givers) کہنے پر مجبور ہوں کیونکہ نظریہ دینے والا کسی نئی سوچ اور فکر کا خالق ہوتا ہے جبکہ کسی نظریے کو ماننے والا صرف اس نظریے کا پیروکار ہوتا ہے۔
تو آج دنیا میں کمیونزم، سوشلزم سمیت تمام ازمز کے پیروکار تو موجود ہیں لیکن یہ سوچ اور نظریات دینے والے آج موجود نہیں ہیں۔ یہ ہے وہ امتیاز میری قیادت کا جس نے کچلے ہوئے انسانوں کو جینے کا حوصلہ عطا کیا۔ اپنی فکر اور لازوال محنت اور بے پناہ صلاحیتوں سے ایک ایسی فکر کی بنیاد ڈال دی ہے جو پاکستان میں رائج فرسودہ جاگیردارانہ وڈیرانہ نظام کے اندر دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی قیادت کاآج انسٹھواں یوم پیدائش ہے۔ تاریخ میں ایسے لوگ کم کم دستیاب ہیں جو اپنی زندگی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دے گئے کہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ کے لیے انہوں نے اپنا نام محفوظ کرایا۔ انہی لوگوں میں سے ایک نام الطاف حسین کا ہے۔ قائد کا یوم پیدائش کارکنان یوم تجدید عہدوفاکے طور پرمناتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ا س مقصد کو یا د کریں، اس مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں جس کے لیے ہم نے قائدِ تحرےک کی قےادت مےں 98فےصد غرےب و متوسط طبقہ کے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کےا اور اس جدو جہد کو جاری رکھنے کا عزم کےا۔ اس دن کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے بنیادی مقصد کو ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی کا مشن بنا لیں اور پاکستان میں حقوق سے محروم عوام کے حقوق کے حصول کے لیے اس وقت تک جدوجہد کریں تاوقتیکہ معاشرے میں سماجی انصا ف کا بول بالا نہ ہوجائے اور یہ مقصد بانیان پاکستان کا بھی تھا۔ یہ مقصد ہر سیاسی وسماجی نظریے کے ماننے والوں کا رہا ہے لیکن ہمیں تجزیہ کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ کون سا نظریہ ہے جو حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ عملیت پسندی کے فلسفے کو بھی پورا کرتا ہو۔ اس کے لیے اگر ہم پاکستان کے طول و عرض میں نظر ڈالیں تو ہمیں ایک ہی نظریہ نظریہ الطاف حسین نظر آتا ہے جو ہمیں آج کراچی سے لے کر پشاور اور کوئٹہ سے لے کر کشمیر تک جا بہ جا نظر آتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ نظریہ اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہوئے غریبوں کی حکمرانی کے سورج کو طلوع ہوتا ہوادیکھے گا۔ انشاءاللہ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38