سرد شام میں میںنے گاڑی معروف سگنل پر روکی،تو ایک بچہ جس کی عمر لگ بھگ13یا14 برس ہوگی۔ وہ تیزی سے بھاگتا ہوا آیا۔اس کے ہاتھ میں وائپر اور ایک کپڑا تھا۔ اس کے کپڑے انتہائی خستہ حال تھے۔چہرے پر بھی گرد جمی تھی۔ اس نے بغیر پوچھے میری گاڑی کی ونڈ سکرین صاف کرنی شروع کردی۔ میں نے پہلے اسے منع کیا اس کے بعد اس کو اس کا کام کرنے دیا۔ میرا دل اتنا پسیجا کہ میں نے گاڑی اشارے سے سائیڈ پر سڑک پر روک لی۔ اس نے جب ونڈ سکرین صاف کرلی تو وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے اسکی ضرورت سے زیادہ رقم اس کوتھما دی۔۔۔ اسکے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔ اس نے کہا شکریہ صاحب۔ وہ چھلانگیں لگانے لگا۔ ۔ ایسے جیسے کہ اس کی بہت بڑی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے میری دی ہوئی رقم مروڑ تروڑ کر جیب میں ڈال لی۔ میں نے اس کوجاتے ہوئے روکا۔کہا بچے میری بات تو سنو۔ وہ دوبارہ میری طرف بڑھا۔ میں نے کہا کیا نام ہے تمہارا؟اس نے معصومہ لہجے میں جواب دیا کیا کروگے صاحب۔ ہمارے نام نہیںہوتے لوگ بس چھوٹے۔ چھوٹے کے نام سے پکارتے ہیں۔ ویسے ماں باپ نے نام راشد رکھا تھا۔اسکے بعد وہ چپ کرگیا۔میں نے اس سے کہا یار تم اتنے چھوٹے ہو تمہاری تو کھلونوںسے کھیلنے اور کتابیں پڑھنے کی عمر ہے؟اس نے ٹھنڈی آہ بھری کہا صاحب۔ جب ماں باپ نہ ہوں۔ سر چھپانے کیلئے چھت نہ ہو اور رہنے کو فٹ پاتھ ہو تو۔کھلونے اور کتابیں نہیںپیٹ بھرنے کیلئے مزدوری کرنی پڑتی ہے۔کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ صرف تنہائی اور ’’چاچا ‘‘کی جھڑکیاں ہوتی ہیں۔۔ جورات کوسارے پیسے چھین لیتا ہے اورصرف دو وقت کی سوکھی روٹی دیتا ہے۔راشد کی کہانی سن کرمیری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔صاحبو! یہ ایک راشد کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس جیسے بہت سے راشد آپ کو ملیں گے۔جو مجبوری میںکم سنی میںمزدوری کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔بچوں کی مشقت ایک عالمی مسئلہ ہے تاہم ترقی پذیر اور کمزور معیشتوں والے ممالک میں اس مسئلے کی سنگینی نسبتاً زیا دہ ہے۔ چائلڈ لیبر کی پیچیدہ صورتحال کا اندازہ اسی بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ دنیا بھر میںبچے وقت سے پہلے مزدوری کررہے ہیںلیکن امرواقع یہ ہے کہ چائلڈ لیبر بچوں کے بنیادی حقوق کی نفی کے ساتھ ساتھ بچوں کا معاشی استحصال بھی ہے، جو ہمارے ملک کے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے۔ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بچے اپنے تعلیم جیسے اہم آئینی حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔واضح رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25A کے مطابق 5 سال سے لے کر 16سال تک کی عمر کے تما م بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ صوبہ پنجاب میں بچوں کی مشقت کی روک تھام کیلئے 3مختلف قوانین موجو د ہیں صوبہ پنجاب میں بچوں کی مشقت کی روک تھام کا قانون۔2016 کے مطابق 15سال سے کم عمر کا بچہ کسی بھی طرح کی مشقت نہیں کر سکتا۔ جبکہ بچوں کے لیے خطرناک قرار دئیے گئے شعبوں میں 18سال سے کم عمر کے افراد کو ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ قانون کی خلاف ورزی پر 6ماہ تک قید اور 50ہزار وپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں گھریلو ملازمین کا قانون 2019بھی موجو دہے جس کے مطابق 15سال سے کم عمر افراد کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا، اور اگر 15سال سے زائد اور 18سال سے کم عمر افرادکو گھریلو ملازم رکھا بھی جاتا ہے تو ان سے بھاری کام نہیں کروائے جا ئینگے۔ اس قانون کے تحت 12 سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کی صورت میں ایک ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور اگر 12سے 15سال تک کی عمر کا بچہ یا بچی گھریلو ملازم رکھا گیا ہے تو 10ہزار سے لے کر 50ہزار روپے تک جْرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔قوانین ضرور بنتے ہیں۔
زندگی میں بچپن ہی وہ دور ہوتا ہے جب انسان کو کسی قسم کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ایسا لاکھوں بچوں کے ساتھ ہورہاہے یہاں چائلڈ لیبر عام ہے یہاں آپکو چائے کے ڈھابے، مکینک، فیکٹریوں ،سڑکوں ،گھروں غرض یہ کہ ہر جگہ بچے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور یہ وہ بدنصیب بچے ہوتے ہیں جن سے چوبیس گھنٹے ہر قسم کا کام کروا لیا جاتا ہے اور بدلے میں جو تنخواہ ملتی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہوتی ہے۔صاحب اقتداراور صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اوران بچوںسے قالین سازی، یا پتھر توڑنے کا کام نہ لیا جائے، بلکہ ان معصوم غریب بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے، ایک بار انگلی پکڑا کر تو دیکھئے صاحب آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے انمول ہیرے مٹی میں ملنے سے بچا لئے۔
کسی شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے
روز سجائے آنکھوں میں ملتا ہوں میں لوگوں سے
شاید کوئی آنکھوں والادیکھ لے میرے خوابوں کو
اور کسی شاعر نے اس کی عکاسی یوں کی ہے
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024