غالباً 1984ء کا ذ کر ہے کہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ پاکستان نے ڈاکٹر عبدا لقد یر صاحب کی شب و روز کی محنت کے بعد ایٹم بم بنا نے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ ہم لوگ بھی اخبار کی دنیا میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اور شد ید خواہش تھی کہ ہمیں بھی ڈاکٹرصاحب سے ملاقا ت کا کو ئی شرف حاصل ہو۔ اچانک معلوم ہوا کہ شورش کشمیری نے اپنے ہفت روزہ کیلئے ایک انٹرویو شا ئع کیا ہے حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے انٹرو یو کے ساتھ لیٹر پیڈ پر ڈاکٹر صاحب نے ’’چٹان‘‘ کے نام تحریری پیغام بھی لکھا ہوا تھا ۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر احمد کمال کے مشورے پر ہم نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا ۔ ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہی جب ڈاکٹر صاحب کے سیکر ٹری نے ہمیں اگلے دن انٹرو یو کیلئے بلا لیا ۔ اصل میں ڈاکٹر صاحب ویکلی وطن’ لندن ‘سے بخوبی آگاہ تھے جب ہا لینڈ کے قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب پر الزام لگا یا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہالینڈ سے ایٹمی راز چوری کر کے پاکستان کیلئے ایٹمی صلا حیت حاصل کی ہے تو اخبار وطن’’ لندن‘‘ نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں مو ثر مہم چلا ئی تھی جس سے ڈاکٹر صاحب بخو بی آگا ہ تھے ہا لینڈ میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایٹمی راز چوری کر نے کا مقدمہ درج کر لیا تھا جس کا ڈاکٹر صاحب نے مضبوطی سے دفاع کیا اور ہا لینڈ کی عدالت نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں فیصلہ دید یا تھا ۔بہر حال ڈاکٹر صاحب نے یورنیم کی افزدوگی کے بارے میں ہمیں تفصیل سے آ گاہ کیا اور یہ بھی بتا یا کہ کس طرح اُن کا ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ ہوا اور وہ دیار غیر میں دس گنا بڑی تنخواہ اور دیگر مراعات چھوڑ کر معمولی مشاہیر پر اپنی خدمات پاکستان کیلئے مختص کر دیں ۔ ۔ہم حیران تھے کہ اُسوقت ڈاکٹر صاحب کا دفتر کسی عالیشان عمار ت کی بجائے بڑے بڑ ے گوداموں والی عمارت پر
مشتمل تھا لیکن اُنہوں نے وطن کی محبت میں کسی بات کی پرواہ نہیں کی اور دن رات ایک کر کے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی۔ ایٹمی صلاحیت کیسے حاصل ہو تی ہے اور یو رنیم کی افزدوگی کیا ہوتی ہے ؟اُنہوں نے ہمیں اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہم لوگ ٹیکنکیل باتوں کو زیادہ نہیں سمجھتے تھے اور نہ صرف ہم بلکہ ایک عام پا کستانی بھی ہمسایہ ملک کے 1974ء کے دھماکوں کے بعد بہت پر یشا ن تھا کہ بھارت کے دھماکوں کے بعد کب اس کا مو ثر جواب دیا جا ئیگا ؟ہم نے سید ھی بات کی ڈاکٹر صاحب ہمیں بتائیں کیا ایٹمی صلاحیت حاصل کر نے کے بعد پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا ہے ؟ اگر چہ ڈاکٹر صاحب کا جوش و خروش دیدنی تھا اور وہ بہت کچھ ہمیں بتا سکتے تھے لیکن اُنہوں نے نہا یت خوبصورت انداز میں بتایا کہ کچھ باتوں کا حتمی اعلان حکو مت وقت اور یا صدر پاکستان ہی کر سکتے ہیں ۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو مز ید کر ید نے کی کوشش کی اور کہا کہ کیا ہم اس بات کی اس طرح وضاحت کر سکتے ہیں کہ ایک طرف تو آٹا گو ندھنے کے بعد تیار ہے اور دوسری طرف روٹی پکا نے کیلئے لو ہا یعنی ’’توا‘‘ بھی گرم ہے اور اگر حکو مت وقت آپ کو کہے ’’ آگے بڑ ھو ‘‘تو آپ اس کا م کو پا یہ تکمیل تک مکمل کرنے کیلئے تیار ہیں تو ڈاکٹر صاحب زیر لب مسکر ائے ! ہم سمجھ گئے کہ ڈاکٹر صاحب اور اُن کی ٹیم اس کا م کیلئے ہر وقت تیار اور GO AHEADکے انتظار میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک قر یبی دوست نے یو رنیم کی افزدوگی اور ایٹم بم بنا نے کے عمل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اگر آپکے پاس دو دھ ، چائے کی پتی ، چینی اور پا نی بھی موجود ہو تو آپ چائے اُسوقت نہیں بنا سکتے جب تک آپکے پاس کیتلی یا دیگچی موجود نہ ہو ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور دوسری مغر بی طا قتیں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے ۔ ہر آنے والا دن کوئی نہ کوئی مغر بی ملک اور اس کا نیوز میڈیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی نہ کوئی افواہ یا شو شہ چھوڑ دیتا تھا ۔ بہر حال ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنا کام مکمل کر چکے ہیںاور دنیا اور مغر بی دنیا ، اور خفیہ ایجنسیوں کے
سامنے یہ راز نہ رہا ! پھر 1998ء میں اُسوقت کی حکومت اور وزیراعظم نے فیصلہ کر لیا کہ پاکستان کو اپنے تحفظ کیلئے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ پا کستانی قوم اپنے قومی لیڈروں اور محسنوں کی اُن کی زندگی میں نہیں بلکہ’’ تیری یا د آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ کے مصداق ڈھو ل کو بعد میں پیٹتی ہے ۔ ہمارے ایک نہایت قابل احترام صحافی نے حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کا اپنے ایک انٹرو یو میں انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طبعیت میں غصہ شامل ہو جاتا ہے اور وہ’’ شارٹ ٹمپرڈ‘‘ ہو جاتے ہیں …ہو سکتا ہے کہ آج کے حالات میں یہ بات درست ہو اور اُس کی بنیاد مختلف حکومتوں کو اُن کے ساتھ برتا ئو اور وعد ہ خلا فیاں ہوں لیکن ہم کم و بیش چالیس سال پہلے 1984ء کی بات کررہے ہیں ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک ایسے ملنساز ،شفیق ،نہایت سادہ اور ایک ایسے شخص سے ملاقات کر رہے ہیں جو اندر اور با ہر سے ایک ہے اور منا فقت بھرے ما حول سے اُن کا دور دورتک بھی واسطہ نہیں … ہو سکتا ہے کہ جب کچھ معاملات ڈاکٹر صاحب کی مر ضی کے خلاف ہو رہے ہوں اور اُن سے مسلسل وعدہ خلافی ہو رہی ہو تو اُن کے لہجے میں تلخی اور شارٹ ٹمپرنیس کا شائبہ شامل ہو گیا ہو اگرچہ جناب نواز شریف کو ایٹمی دھما کہ کر نے کا کریڈ ٹ دیا جاتا ہے لیکن ٹی وی چینل کے انٹرو یو میں ڈاکٹر صاحب نے شکا یت کے انداز میں کہا کہ نواز شریف نے اُن سے وعد ہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اُنکی خد مات کے صلے میں اُنہیں صدر پاکستان بنا ئیں گے لیکن… وہ اپنا یہ وعد ہ بھو ل گئے ۔ ڈاکٹر صاحب فخر سے کہتے تھے کہ اُن کا تعلق بھو پا ل کے یو سف زئی قبیلہ سے تھا اور ہم یہاں سے تین سو سال پہلے بھوپا ل گئے تھے اور یہ کہ ہمارا خون خالص ہے اور اسی وجہ سے بھو پا ل میں نہ تو کو ئی غدار پیدا ہو ا اور نہ ہی قادیانی ۔اسی لئے میں حق بات کہنے پر میں لڑ نے مرنے کیلئے تیار ہو جا تا ہو ں ۔