سیاست ہالی وڈ کی فلم نہیں کہ جس میں نیک اور بد کا تصور موجود ہو بلکہ یہ تو وہ سیاسی اور جمہوری پلیٹ فارم ہے جہاں سب کو جذبہ حب الوطنی کے تحت کام کرنا پڑتا ہے لیکن ہم سیاسی زوال کے اس دھانے پر کھڑے ہیں جہاں تعمیری کردار کی بجائے وہ نیک و بد کا تصور موجود ہے جس نے سیاسی رسہ کشی گھیراؤ جلاؤ ٹوڑ پھور باہمی چپقلش جیسی سیاست کو جنم دیا ہے۔ ایڈم اسمتھ کے بیان کردہ نکتے کے مطابق معاشی ترقی کا آسان اور فعال طریقہ وہ گڈ گورننس ہے کہ جس کے تحت اجتماعی کشش اور اپوزیشن کا مثبت اور تعمیری کردار ہی معاشی اور سیای استحکام کی راہیں استوار کرسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد اس حکومت پر سازشوں کا وہ انبار لاد دیا جاتا ہے کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے حکومت کی توجہ سازشوں کے سدباب مخالفوں سے محاذ آرائی میں بٹ جاتی ہے جبکہ اپوزیشن اپنے خطبوں اور تقاریر میں حکومت کی نااہلی کا دکھڑا سناتی نظر آتی ہے اور ساس بھی کبھی بہو تھی کی طرح تعمیری کاموں کی بجائے سیاسی رنجشیں اور محاذ آرائیاں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں ہم درحقیقت دوسروں کی خامیاں تلاش کرتے ہوئے اس کی ناکامی کے منتظر رہتے ہیں من حیث القوم ہمارا انفرادی اور اجتماعی طور پر یہی معاملہ ہے لاطینی امرکہ کے سیاسی انتشار اور کمزور معیشت کے پیچھے بھی یہی محرکات تھے راقمہ نے کسی زمانے میں ایک افسانہ نجات دھندہ کے عنوان سے لکھا جسکا مرکزی خیال یہ تھا کہ بستی کے چند لوگ سرشام جاکر بستی کے دہانے پر نجات دھندہ کے منتظر رہتے تھے ایک شام بستی کے دوسری طرف سے آنے والے درویش نے انہیں بتایا کہ نجات دھندہ تو تم لوگوں کے درمیان موجود ہے تم لوگ پہچاننے سے قاصر ہو جس دن ہمیں یہ شعور حاصل ہوگیا ہم فکری بحران سے نکل آئیں گے مشہورجاپانی مفکر فوکویامہ اور معاشی ماہر دیپک لال اس خیال پر متفق ہیں کہ معاشرے کی اجتمائی سوچ اور حکمت اور اپوزیشن کا ایک پلیٹ فارم پر ہی اکٹھا ہونا سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف پہلا قدم ہے درحقیقت مضبوط معاشرتی تہذیبی اور سماجی پس منظر ہی وہ عوامل ہیں جو ریاست کے بقا کی ضامن ہیں اقتصادی ترقی کے لئے جس قسم کی سوشل ایسٹ کی ضرورت ہے اور جس پر ماہرین اصرار کر رہے ہیں وہ قانون کی بالا دستی جمہوریت اور حکومت اور اپوزیشن کا مثبت کردار ہے فوکویامہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جاپانی معاشرے میں بڑے عہدے پر فائز اپنے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور لوگ اس بڑے عہدے دار کی حکم عدولی گناہ سمجھتے ہیں بقول شاعر…؎
اس دور کے لوگ بھی سچے تھے
سقراط کو زہر پلاتے تھے
بقراط کو سولی چڑھاتے تھے
اور اپنی جھوٹی انا کے لئے
لفظوں کی سند لے آتے تھے
اس دور کے لوگ بھی سچے ہیں
سقراط کو زہر پلائیں گے
بقراط کو سولی چڑھائیں گے
اور اپنی جھوٹی انا کے لئے لفطوں کی
سند لے آئیں گے
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38