بدشگونی سے بچئے!
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ’’صفر کوئی چیز نہیں‘‘۔ (صحیح البخاری، الحدیث ۵۷۵۷، ج۴، ص۳۶)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے بدشگونی لی اور جس کیلئے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر، ۱۸، ۱۶۲، حدیث: ۳۵۵ و فیض القدیر، ۳/۲۸۸، تحت الحدیث: ۳۲۰۶)ایک بادشاہ اپنے وزیروں مشیروں کے ساتھ دربار میں موجود تھا کہ کالے رنگ کے ایک آنکھ والے آدمی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا ، لوگوں کو شکایت تھی کہ یہ ایسا منحوس ہے کہ جو صبح سویرے اِس کی شکل دیکھ لیتا ہے اُسے ضرورکوئی نہ کوئی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے لہٰذا اِسے ملک سے نکال دیا جائے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے کہا : کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں خود تجربہ کروں گا اور کل صبح سب سے پہلے اِس کی صورت دیکھوں گا، پھر کوئی دوسرا کام کروں گا۔اگلے دن جب بادشاہ بیدار ہوا اور خوابگاہ کا دروازہ کھولا تووہی ایک آنکھ والا آدمی سامنے کھڑا تھا۔ بادشاہ اس کو دیکھ کر واپس پلٹ آیا اور دربار میں جانے کیلئے تیار ہونے لگا۔لباس تبدیل کرنے کے بعد جونہی بادشاہ نے جوتے میں اپنا پائوں ڈالا، اُس میں موجود زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا، بادشاہ کی چیخیں بلند ہوئیں تو خدمتگار بھاگم بھاگ اسکے پاس پہنچے۔ زہر کے اثر سے بادشاہ کا سرخ وسفید چہرہ نیلا پڑ چکا تھا ،محل میں شور مچ گیا کہ ’’بادشاہ سلامت کو بچھو نے کاٹ لیا ہے۔‘‘ چند لمحوں میں وزیر خاص بھی پہنچ گئے، ہاتھوں ہاتھ شاہی طبیب کو طلب کر لیا گیا جس نے بڑی مہارت سے بادشاہ کا علاج شروع کردیا۔ جیسے تیسے کر کے بادشاہ کی جان تو بچ گئی لیکن اسے کئی روز بستر علالت پر گزارنا پڑے، جب طبیعت ذرا سنبھلی اوربادشاہ دربارمیں بیٹھا تو ایک آنکھ والے آدمی کو دوبارہ پیش کیا گیا تاکہ اسے سزا سنا ئی جائے کیونکہ شکایت کرنے والوں کاکہنا تھا کہ اب اسکے ’’منحوس‘‘ ہونے کا تجربہ خود بادشاہ سلامت کرچکے ہیں۔ وہ شخص رو رو کر رحم کی فریاد کرنے لگاکہ مجھے میرے وطن سے نہ نکالا جائے،یہ دیکھ کر ایک وزیر کو اس پر رحم آ گیا، اس نے بادشاہ سے بولنے کی اِجازت لی اور کہنے لگا: بادشاہ سلامت! آپ نے صبح صبح اس کی صورت دیکھی تو آپ کو بچھو نے کاٹ لیا اسلئے یہ منحوس ٹھہرا لیکن معاف کیجئے گا کہ اِس نے بھی صبح سویرے آپ کا چہرہ دیکھا تھا جس کے بعد سے یہ اب تک قید میں تھا اور اب شاید اسے ملک بدری (یعنی ملک چھوڑنے) کی سزا سنا دی جائے تو ذراٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ منحوس کون؟ یہ شخص یا آپ؟ یہ سن کر بادشاہ لاجواب ہوگیا اور ایک آنکھ والے کالے آدمی کو نہ صرف آزاد کردیا بلکہ اِعلان کروا دیا کہ آئندہ کسی نے اس کو منحوس کہا تو اُسے سخت سزا دی جائے گی۔کسی شخص، جگہ، چیز یا وَقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔ امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ سے اسی نوعیت کا سوال کیا گیا کہ ایک شخص کے متعلق مشہور ہے، اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دِقت اور پریشانی اٹھانی پڑیگی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وثوق (اِعتماد اور بھروسہ) ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہو گی چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب ہربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس اَمر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آ جاتے ہیں اورتھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے‘ اپنے کام کیلئے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِعمل کیسا ہے؟ کوئی قباحت شرعیہ تو نہیں؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: شرعِ مطہر میں اسکی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے: ’’جب کوئی شگونِ بدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے، مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہئے کہ اے اللہ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں) پڑھ لے اور اپنے رب عزوجل پر بھروسا کر کے اپنے کام کو چلا جائے، ہر گز نہ رُکے، نہ واپس آئے‘‘۔ کسی شخص کو منحوس قرار دینے میں اس کی سخت دِل آزاری ہے اور اس سے تہمت دھرنے کا گناہ بھی ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں برے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے اسلئے کسی شخص کے دِل میں بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائیگا کیونکہ محض دِل میں برا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کیخلاف ہے۔بدشگونی انسان کیلئے دینی و دُنیوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے، یہ انسان کو وسوسوں کی دَلدل میں اُتار دیتی ہے، چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ اپنی پرچھائی (یعنی سائے) سے بھی خوف کھاتا ہے۔ وہ اس وَہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دُنیا کی ساری بدبختی و بدنصیبی اسی کے گرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا شخص اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں کدورت (دُشمنی) پیدا ہوتی ہے۔ بدشگونی کی باطنی بیماری میں مبتلا انسان ذہنی وقلبی طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے اور کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتا۔ امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’جان لو! بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیں ہے‘‘۔ بدشگونی کا شکار ہونیوالوں کا اللہ عزوجل پر اِعتماد اور توکل کمزور ہوجاتاہے۔ اللہ عزوجل کے بارے میں بدگمانی پیداہوتی ہے، تقدیر پر ایمان کمزور ہونے لگتا ہے، شیطانی وَسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ بدفالی سے آدمی کے اندر توہم پرستی، بزدلی، بزدلی، ڈر اور خوف، پست ہمتی اورتنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاً کام کرنے کا طریقہ درست نہ ہونا، غلط وقت اور غلط جگہ پر کام کرنااور ناتجربہ کاری لیکن بدشگونی کا عادی شخص اپنی ناکامی کا سبب نحوست کو قرار دینے کی وجہ سے اپنی اِصلاح سے محروم رہ جاتا ہے۔ بدشگونی کی وجہ سے اگر رشتے ناطے توڑے جائیں تو آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔ جو لوگ اپنے اوپر بدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں، انہیں ہرچیز منحوس نظر آنے لگتی ہے ، کسی کام کیلئے گھر سے نکلے اور کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تویہ ذہن بنالیتے ہیں کہ اب ہمارا کام نہیں ہوگا اور واپس گھر آگئے، ایک شخص صبح سویر ے اپنی دُکان کھولنے جاتاہے، راستہ میں کوئی حادثہ پیش آیا تو سمجھ لیتاہے کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے لہٰذا آج مجھے نقصان ہو گا، یوں ان کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ کسی کے گھر پر اُلو کی آواز سن لی تو اِعلان کردیا کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونیوالاہے، جسکے نتیجے میں اس گھروالوں کیلئے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔ نیا ملازم اگر کاروباری ڈِیل نہ کرپائے اور آرڈر ہاتھ سے نکل جائے تو فیکٹری مالک اسے منحوس قرار دیکر نوکری سے نکال دیتا ہے۔ نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گرکر ٹوٹ پھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھاجاتاہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بدشگونی اور طرح طرح کے ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کیلئے حتی المقدور کوشش کرتے رہیں۔