جمعرات ‘ 17؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 17 ؍ اکتوبر 2019 ء
برطانوی شاہی جوڑے کا پاکستانی لباس
’’السلام علیکم‘‘ اور ’’شکریہ پاکستان‘‘ کے الفاظ
برطانوی شاہی جوڑ ے نے اپنی آمد کے بعد پہلا دن کافی مصروف گزارہ۔ انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ سجے سجائے پاکستانی آرٹ و ثقافت کے نمونے رکشہ میں سیر کی۔ مقامی سکول کے بچوں سے ملاقات کی۔ صدر مملکت کی طرف سے دیئے عشائیے میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر شہزادہ ولیم کو جہاں بات چیت کا یا خطاب کا موقع ملا اس کا آغاز انہوں نے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر کیا اور اختتام ’’شکریہ پاکستان‘‘ کہہ کر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت اعتماد اور تیاری کے ساتھ پاکستان آئے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ کہاں کس زبان میں کس انداز میں گفتگو کرنی چاہئے۔ ان کے اس انداز نے لاکھوں پاکستانیوں کے دل موہ لئے۔اس طرح ہمارے جو نوجوان ملتے ہوئے السلام علیکم کہنا اور شکریہ کہنا بھول گئے ہیں وہ بھی اب اس طرف توجہ دیں گے۔ اس طرح شہزادی کیٹ میڈلٹن نے پہلے روز کی تمام تقریبات میں پاکستان کا قومی لباس پہن کر اس لباس کی خوبصورتی کو اُجاگر کیا اور میڈیا پر چھا گئیں۔ اس سے قبل شہزادہ ولیم کی والدہ لیڈی ڈیانا بھی جب پاکستان آئی تھیں انہوں نے بھی قمیض شلوار پہنی تھی۔ ڈوپٹہ پاجامہ اور کُرتا ہر رنگ میں سجتا ہے۔ لگتا ہے اب ان کے اس شاہانہ لباس کو دیکھ کر ایک بار پھر ملک میں قمیض شلوار کُرتا پاجامہ اور ڈوپٹے کے فیشن کو عروج ملے گا ا ور اس میں نت نئی اختراع سامنے آئے گی۔ یوں شاہی جوڑے کا یہ دورہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری کے لئے بھی سعد ثابت ہوگا ا ور ہماری ان خواتین کو جو مغربی سٹائل کے لباس پہننے کے چکروں میں رہتی ہیں، ایک بار پھر قومی لباس کی جدید تراش خراش پسند آئے گی۔
…………
مال روڈ پر بہرے اور نابینا افراد کا دھرنا جاری
دھرنا کیا ہے؟ چند درجن مظلوموں کا اجتماع ہے جسے دھرنے کا نام دے کر خوفناک بنا کر پیش کیا گیاہے۔ ان معذور افراد کو ہر بار حاکمانِ وقت لولی پاپ دے کر بہلا دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یعنی ان کی نوکری پکی کرنے اور ان کے کوٹے پر میرٹ کے مطابق عمل کرنے کا ہے وہ جوں کا توں رہتا ہے۔ اب ان خصوصی افراد نے چیئرنگ کراس کے درمیان صوبائی اسمبلی پارک کے سامنے سڑک پر کئی دنوں سے تا دمِِ تحریر دھرنا دے رکھا ہے کہ ان کے مطالبے پورے کئے جائیں مگر کسی کو ترس نہیں آتا۔ اُلٹا اس دھرنے کی وجہ سے مال روڈ چیئرنگ کراس جسے فیصل چوک کہتے ہیں کو بیریئر لگا کر بند کردیا گیا ہے جس سے اور کچھ ہو نہ ہو ٹریفک کی روانی میں ضرور خلل پڑ رہا ہے اور شہری پریشانی کا شکار ہیں۔ دن کو شدید دھوپ میں بیٹھے یہ خصوصی افراد تپتی سڑک پر اپنی مظلومی اور حکمرانوں کی بے حسی کا رونا رو رہے ہیں۔گزشتہ روز ان کے مرغا بننے پر بھی کسی کو ترس نہیں آیا۔
یہ کوئی لاکھوں ہزاروں کا معاملہ نہیں چند درجن افراد ہیں بہت ہوا تو سینکڑوں معذور افراد ہونگے جو سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور مستقل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکمران تو ان کے بھی مائی باپ ہیں وہ ان پر ترس کھائیں ان کے تالیف قلوب کا اہتمام کریں۔ ان کی دعائیں حاصل کریں اور ساتھ ہی ان ہزاروں شہریوں کی بھی جو مال روڈ کے اس اہم چوک کی بندش سے پریشان ہیں۔ نرم دل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے امید ہے کہ وہ ان معذور افراد کی داد رسی کر کے دعائیں لیں گے…!!
………
سکھر احتساب عدالت کے باہر خورشید شاہ کا ہاتھ چومنے والا انسپکٹر معطل
ایک باوردی پولیس والا جب ایک گرفتار ملزم کو پیر فقیر مان کر اس کے ہاتھ چومے گا تو محکمے والے اس کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے تو کیا کریں گے۔ یہ تو وہی مرزا غالب والی بات ہے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا کہ میری شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
ایسی غلطی غالب بھی کر چکے تھے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا، اب یہی شاہ جی کے ہاتھ چومنے کا خمیازہ پولیس انسپکٹر کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چلومان لیتے ہیں وہ انسپکٹر شاہ جی کا مرید ہوگا۔ مگر جب شاہ جی خود قانون کے شکنجے میں ہیں اور بطور ملزم حراست میں ہیں تو کالی وردی کے نام پر ہی انسپکٹر صاحب کچھ احتیاط کرتے مگر لگتا ہے۔ یہ کوئی خاصہ جذباتی شخص ہے جو سب رکھ رکھائو بھول گیا۔ یقین کریں اگر شاہ آزاد ہوتے تو اس انسپکٹر میں جرأت نہ ہوتی ان کے ہاتھ چومنے کی نہ حفاظتی دستہ اس کی اجازت دیتا۔ اب جو ہونا تھا ہو چکا مگر جلد یا بدیر اگر پی پی کی حکومت آگئی اور شانہ جی پھر صاحب اقتدار ہوگئے تو اس انسپکٹر کے مقدر کا ستارہ سمجھیں چمکا ہی چمکا۔ یہ ڈائریکٹ کسی بڑی پوسٹ پر تعینات ہو سکتا ہے۔ زرداری صاحب نے بھی اپنے گزشتہ ایام جیل کے محسنوں کو نہیں بھلایا انہیں بہرحال نوازہ۔ یہ تو شاہ جی ہیں یہ کیا پیچھے رہیں گے۔ پیپلز پارٹی والے تو اس جرأت رندانہ پر داد و ہش کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ محکمہ پولیس میں بہت سے افسر ہاتھ مل رہے ہیں کہ فلاں انسپکٹر بازی لے گیااور ہم رہ گئے۔
…………
خیبر پی کے حکومت کا جے یو آئی کے باوردی دستے کیخلاف کارروائی کا اعلان
کئی دنوں سے ملک کے باقی حصوں کا تو پتہ نہیں مگر خیبر پی کے میں جے یو آئی کے ہزاروں باوردی دستے ایسے نمایاں ہونے لگے جیسے برسات میں کھمبیاں۔ کئی مقامات پر انہوں نے مارچ پاسٹ بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے سلامی کے چبوترے سے ان کی سلامی بھی لی۔ چلیں اس طرح مولانا صاحب کی مارچ پاسٹ کرتے دستے سے سلامی لینے کی خواہش تو پوری ہو گئی ہو گی۔ نجانے کہاں کہاں کتنے مدرسوں میں ایسے باوردی دستے مارچ پاسٹ کرتے 27اکتوبر کے مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اوپر سے وفاقی حکومت نے صوبوں کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی حدود میں نکلنے والے ان جلوسوں کو خود روکیں۔ جس کے بعد اب خیبر پی کے حکومت نے ازخود ان وردی پوش دستوں کو خلاف آئین قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ جو جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے مطابق بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اب کہیں صوبائی حکومت کے اس جارحانہ طرز عمل سے مارچ سے پہلے ہی فلائی پاسٹ کے مظاہرے نہ ہونے لگیں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذرا سی بے اختیاطی بھوسے میں آگ لگانے والی تیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ شوکت یوسفزئی دانش مند شخص ہیں وہ بھی محتاط رہیں۔
میں آگ لگانے آیا ہوں
میں آگ لگا کر جائوں گا
والے بیانات سے معاملہ سلجھتا نہیں، بگڑتا ہے۔
…………