حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ
جنہوں نے اسلام کی اِس شمع نُور کو ہر علاقے میں ہر شخص تک پہنچایا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان کی قندیلیں روشن رکھیں۔ قریباً چھٹی صدی ہجری میں تین ایسی عظیم شخصیتیں نمایاں ہوئیں جنہوں نے دعوتِ حق کے اس طریقے کو، جو دلوں کو اللہ کی جانب مائل کرنے کا ہے ، باقاعدہ سلسلوں کی شکل دی۔ فقراء کے چار سلسلے مشہور چلے آرہے ہیں۔ اُن میں ایک سلسلہ قادریہ کہلاتا ہے ۔اس کی نسبت حضور سیّدنا غوث الاعظم شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرہ العزیز سے ہے اور انہی کے نام پاک کی نسبت سے یہ سلسلہ قادریہ کہلاتا ہے ۔ دوسرا مشہور سلسلہ چشتیہ ہے اس کے مورثِ اعلیٰ حضور خواجۂ خواجگان، خواجہ غریب نواز، خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ تیسرا سلسلہ سہروردیہ ہے ۔ یہ حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے ۔ چوتھا نقشبندیہ سلسلہ ہے جس کے سربراہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند بخاری رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ یہ چاروں سلسلے برصغیر پاکستان و ہند کے علاوہ عراق، ایران، افغانستان، بخارا، بدخشاں، ترکستان، چین، غرض تمام بلادِ عرب و عجم میں بہت پھیلے اور ان کے ذریعے رب العالمین جلَّ شانہٗ کا حقیقی پیغام اُس کے بندوں تک اس طرح پہنچا کہ وہ بارگاہِ حق کے مقربین ثابت ہوئے ۔ یہ طریقِ فقیر ہے اور یہ فقراء ہی ہیں جنہوں نے اپنی بلند نگاہی، حق پرستی، دین داری، تقویٰ اور سوز بصیرت کی بدولت دونوں جہانوں کی نعمتوں کے خزانے لٹائے ۔ بقول اقبال رحمتہ اللہ علیہ:
جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں ، زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
حضرت شیخ بہاء الدین کا نسبی تعلق خاندانِ قریش کے قبیلہ بنی اسد سے ہے ۔ آپ نے بارہ برس کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا اور صرف و نحو اور دوسرے علوم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لی تھیں۔ اسی اثنا میں آپ کے والدِ گرامی کا انتقال ہو گیا لیکن حضرت شیخ کے ذوق و شوق نے انہیں دوسرے باکمال اساتذہ کی خدمت میں پہنچا دیا۔ حضرت غوث بہائالحق زکریاؒ اعلیٰ علوم حاصل کرنے کے شوق میں وطن سے نکلے اور خراسان تشریف لے گئے ۔ پھر بلخ، بخارا اور دوسرے اہم علمی مراکز میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے حرمین شریفین پہنچے ۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر پہلے حج کا شرف حاصل کیا پھر حضور سیّد الثقلین، امام الانبیائﷺ کی بارگاہِ رحمت و نُور میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچے ۔ یہاں آپ پر کمال کرم کے دروازے کھلے ، پورے پانچ برس حرمِ نبویﷺ میں حاضر رہ کر فیوض و برکات حاصل کیے ۔ اِدھر ہی ایک باکمال بزرگ حضرت شیخ کمال الدین یمانی رحمتہ اللہ علیہ سے حدیثِ پاک کی آخری کتابوں کا درس لیا اور سندِ فضیلت حاصل کی۔
تمام علوم کی تکمیل کے بعد حضرت شیخ بہاء الدین زکریاملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے حضور سیّد الانبیائﷺ کے روضۂ مطہرہ کے پاس کچھ وقت مخصوص عبادات میں گزارا۔ جب یہاں سے اجازت ملی تو بیت المقدس روانہ ہو گئے ۔ وہاں آپ نے بیت المقدس اور دوسرے مقدس مقامات پر حاضریاں دیں اور پھر بغداد شریف پہنچے جو اُس وقت ہر طرح کے اہل کمال کا ایک بڑا مرکز تھا۔ وہاں کئی بزرگوں سے ملے اور فیض حاصل کیا۔ لیکن جب سلسلۂ سہروریہ کے مورثِ اعلیٰ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کی جانب دل کا میلان ہوا اور آپ نے اُن سے بیعت کر لی۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے صرف سترہ روز میں اُن کی باطنی تربیت مکمل کر دی اور خرقۂ خلافت دے کر حکم فرمایا کہ ملتان واپس پہنچ کر خلقِ خدا کو راہِ حق دکھائیں۔
حضرت غوث بہاء الحق زکریارحمتہ اللہ علیہ نے ملتان میں بیٹھ کر دعوتِ حق کا سلسلہ آغاز کیا تو عمر ِمبارک پینتیس اور چالیس سال کے درمیان تھی۔ طبیعت میں کمال استقامت اور عزم راسخ تھا۔ آپ کی دعوت شریعت و طریقت کی تھی۔ نیکیوں کی تعلیم دیتے ۔ اتباع شریعت کی سختی سے تاکید کرتے ۔ عبادات اور تقویٰ آپ کے مسلک کی بنیاد تھی۔ کسی شخص کے دنیوی اثر و رسوخ کو ہر گز خاطر میں نہیں لاتے تھے اور طالبانِ حق کے لیے کمالِ شفقت و محبت کے دروازے کھول دیتے تھے ۔
آپ کی اس تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ لاکھوں افراد آپ کے ہاں پہنچتے اور دینِ حق کی عظمتوں کا پرچم لے کر واپس جاتے ۔ آپ واقعی بہت بڑے شیخ تھے آپ کی دینی خدمات کی کئی جہتیں ہیں ۔ آپؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ ان تمام زمینوں کو جو بنجر اور بے آباد ہوتی تھیں ان کے مالکوں سے لیا کرتے اور غریبوں، درویشوں اور طالبانِ علم کے ذریعے انہیں آباد کراتے یعنی اِن لوگوں کو ایسی اراضی پر بھیجتے اور کھیتی باڑی میں لگا دیتے ۔ ایسی اُفتادہ زمینوں کی کاشتکاری سے جو فصلیں حاصل ہوتیں اُن سے زیادہ تر انہی لوگوں کی کفالت ہوتی جو وہاں محنت کشی کرتے ، جو بچ رہتا اُس سے دوسرے نادار غریب لوگوں میں تقسیم فرما دیتے ۔ اس طرح جگہ جگہ مدرسے تعمیر کرائے ، مسجدیں بنوائیں، نادار لوگوں کے لیے محتاج خانے بنوائے ۔ بعض روایات کے مطابق ملتان سے دِلّی، بلوچستان اور اندرونِ سندھ تک آپ کی بنوائی ہوئی اقامت گاہیں، سرائیں اور محتاج خانے موجود تھے ۔ جہاں ایسے لوگ بھی رہتے جو وہاں رہ کر علوم حاصل کرتے اور ضرورت مند بھی کھانا، کپڑا اور دوسری ضروریات وہاں سے لے کر جاتے ۔ ایسے سبھی مرکزوں میں اُستاد، درویش اور دوسرے کارکنوں کو آپ ملتان سے بھی ضرورت کی اشیاء بھجواتے ۔ دِلّی کے مرکزی حکومت کے لوگ بھی آپ کی حق آگاہی اور خدمتِ دین کے باعث آپ کی بڑی عزت و تکریم کرتے اور بارہا مشکل ترین انتظامی معاملات میں آپ کی راہنمائی سے بھی برکتیں حاصل کرتے ۔ تاہم ایسے لوگوں سے بھی آپ کا تعلق اللہ ہی کی خاطر رہتا یعنی شریعت کی پابندی اور کردار کی پختگی پر انہیں کاربند رکھتے ۔
حضرت شیخ بہاء الدین زکریارحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور میں مسلمانوں کی حکومت کو بھی مستحکم بنانے کے لیے پوری طرح کام کیا۔ سلطان شمس الدین التتمش رحمتہ اللہ علیہ کے خلاف ملتان کے حاکم قباچہ کی طرف سے بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے کا بھی عظیم کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے پوری جرأت اور استقامت کے ساتھ اس معاملے میں قباچہ کی اعلانیہ سرزنش کی۔ سلطان کو سازش سے آگاہ کیا اور عام مسلمانوں کو حکومت کے استحکام میں ساتھ دینے کی تلقین کی۔ایک اور موقع پر منگولوں کے حملے میں ملتان جب عین خطرے کی زد میں آیا تو تنہا حضرت شیخ ہی تھے جنہوں نے جمالِ بصیرت اور فراست کے ساتھ اس قیامت سے ملک کو بچایا۔ آپ لاکھ سے زائد اشرفیاں لے کر حملہ آوروں کے سردار کے ہاں گئے اور فرمایا یہ لے لو اور چلے جائو! بے کار کشت و خون سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ آپ کی یہ تدبیر کارگر رہی اور ملتان محفوظ رہا۔
حضرت شیخ کی تعلیمات میں سب سے زیادہ اصرار شریعت کی اتباع پر تھا۔ آپ صوفیوں اور عالموں کو ہمیشہ یہی تلقین فرماتے کہ قرآنِ حکیم اور سنّتِ رسولﷺ پر پورا پورا عمل پیرا رہنا لازم ہے ۔ آپ کے اپنے شب و روز دوسری تمام مصروفیات کے باوجود ادائے فرائض کے علاوہ تلاوتِ کلامِ پاک، درود و سلام، تعلیمِ حق، شب بیداری اور نفلی عبادات کے مشاغل میں گزرتے ۔ شیخ الشیوخ العالم حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ، اُن کے مُرشد گرامی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے خواجگانِ چشت سے ایک خاص قلبی محبت کا تعلق ہمیشہ قائم رہا جسے اُن کے خلفاء حضرت شیخ جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ صدر الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ ابوالفتح رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات نے بھی قائم رکھا۔ ملتان، سندھ اور بلوچستان کو تو خود خواجگانِ چشت نے بھی حضرت شیخ بہاء الدین زکریارحمتہ اللہ علیہ ملتانی کی ولایت فرمایا ہے ۔
کم و بیش پچاس برس تک ایک جہان کو سوزِ ایمان سے منور کر کے یہ آفتابِ رُشد و ہدایت سن661ہجری میں 95 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ حضرت غوث بہاء الحق کو دُنیا سے رخصت ہوئے سات صدیاں گزر گئی ہیں لیکن ملتان میں آپ کا آستان آج بھی مرجعِ خلائق ہے اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔
٭٭٭٭