شہباز شریف کی گرفتاری اور بیانیہ
مسلم لیگ ن کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کر لیا ہے ۔ ان پر مختلف کیسوں کے سلسلے میں تحقیقات چل رہی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے اپنے دورحکومت میں ہی یہ تحقیقات شروع ہوئیں اور نیب میں مسلسل پیش بھی ہوتے رہے ہیں۔ قانونی موشگافیوں سے ذرا ہٹ کے کہ صاف پانی کمپنیوں کی تحقیقات میں بلایا گیا اور آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کوئی اتنا بڑا نکتہ بھی نہیں کہ اس پرہی بحث کی جائے۔ یہ لیگی کارکنوں کا کام ہے کہ وہ اسے سیاسی نعرہ بنائیں اور مسلم لیگی دانشور ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے قائدین کے حق میں گفتگوکریں اور رائے عامہ ہموارکریں۔ میرے خیال میں ایسی گرفتاریوں کی توقع بھی رکھنی چاہیے تھی۔ کم و بیش 35 سال پنجاب میں بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کرنے والے شہباز شریف کو یہ ادراک ہونا چاہیے تھا اور شاید انہیں اس بات کا اندازہ اسی روز ہو گیا تھا جب احمد چیمہ گرفتار ہوئے تھے۔ بعدازاں فواد حسن فواد نیب کی پکڑ میں آئے تھے۔ یہ وہ بیوروکریٹ تھے جن سے تمام بیوروکریٹ ڈرتے تھے۔ شہباز شریف کے اس کیس میں گواہیاں دینے والے یہی ’’چہیتے‘‘ اور ’’بااعتماد‘‘ افسران ہیں جنہیں خود انکی سرکار نے خوب نوازا بلکہ اس طرح نوازا کہ بقول کسے کہ میرٹ کی چیونٹیوں کی رفتار سے رینگتی افسران کی فہرست میں نیچے سے اوپر یوں چلے گئے جیسے سانپ سیڑھی کے کھیل میں 99 پر سانپ کے ڈسنے سے کھلاڑی نیچے پہنچ جاتا ہے۔ ان کے جلال پر خود ان کے ’’بیچ‘‘ کے افسران بھی کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے۔ ماتحت عملہ اس طرح سراسیمگی کا شکار ہوتا تھا جیسے شہنشاہ اکبر پدھار رہے ہوں۔ اس دوران راولپنڈی صدر کے جی پی او کے بالمقابل ایک عالی شان پلازہ اس شان سے بلند ہوا کہ بڑے بڑوں کے سر جھک گئے۔ آج یہی لوگ سب کچھ اگل رہے ہیں۔ قارئین کرام! بات کسی اور طرف نکل گئی اور اگر یہ قلم چلتا رہا تو فواد حسن فواد کی طرف سے اصلاحات کے نام پر بنی کمیٹی جس کی سربراہی بھی اس کے بھائی بند کے پاس تھی اور دیگر سروسز کے لوگ اس پر کام نہ کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو کم تر ہی سمجھتے رہے ۔ اب ’’سیاسی انتقام‘‘ اور ’’پارلیمانی توہین‘‘ جیسے الفاظ اثرانداز نہیں ہونگے۔ نئے گھوڑے میدان میں ہیں اور وہ مکمل طور پر پراعتماد ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا پہلا سعودی عرب کا دورہ این آر او کی وصولی میں گم کر دیا گیا حالانکہ وہ ان کے نظام پر بریفنگ لینے گئے تھے کہ دوسرے ممالک میں سرمایہ منتقل کر کے غیر قانونی طریقے سے جائیدادوں کو کیسے ضبط کیا جائے اور کیسے ان سے رقم وصولی جائے۔ اسی لئے تو وزیراعظم پاکستان کہہ رہے ہیں کہ نیب کی کارکردگی سستی کا شکار ہے۔ اگر نیب ان کے کنٹرول میں ہوتی تو اب تک پچاس مرغے جیلوں میں ہوتے۔ میاں شہباز شریف نے شروع دن سے اپنے بھائی میاں نواز شریف کے بیانیے سے اپنے آپ کوالگ تھلگ رکھا۔ اپنے بڑے بھائی کو الگ سمجھایا اور مریم نواز کو الگ لیکچر دیتے رہے۔ عدلیہ اور فوج کے بارے میں خود بہت محتاط رہے حتیٰ کہ عمران خان کی حکومت کے بارے میں بھی ہاتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دیتے رہے۔ میاں نواز شریف کی گرفتاری پر بھی وہ ’’سوفٹ‘‘ نظر آئے اور ہزاروں لوگ احتجاج کیلئے باہر نہ نکل سکے۔ شہباز شریف کا بیانیہ بظاہر ناکام نظر آتا ہے۔ ان کی گرفتاری پر بھی لوگ باہر نہ نکل سکے۔ اعلیٰ قیادت کہیں نظر نہ آئی۔ لوہے کے چنے بھی نظر نہ آئے۔ کارکن تو بکتر بند گاڑی کے آگے لیٹ جاتے لیکن کچھ دیکھنے کو نہ ملا۔ چوری کھانے والے بڑے بڑے لیڈر سہمے سہمے بیٹھے ہیں کہ کہیں ان کی باری نہ آ جائے۔ دوسری طرف نواز شریف خود ہائی کورٹ فل بنچ کے سامنے غداری کے مقدمے میں پیش ہوئے۔ ابھی کتنے امتحانوں سے انہوں نے گزرنا ہے۔ اگر لیگی کارکنان کو تربیت دی ہوتی تو وہ سڑکوں پر ہوتے لیکن بدقسمتی سے مسلم لیگ اپنے اندر کارکن نہ بنا سکی۔ اس جماعت میں صرف لیڈر ہی بنتے ہیں۔ محض چند دھتکارے ہوئے سیاستدان ان کی مدد کیلئے آ جاتے ہیں جس میں مجلس عمل پیش پیش ہوتی ہے اور قومی کانفرنس کا انعقاد کر کے ’’سرکاری خرچ‘‘ پر حق نمک ادا کرتے آئے ہیں حالانکہ ان لوگوں کے پاس کسی قس کی نمائندگی بھی نہیں ہے۔قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’میں لوگوں میں دِنوں کو پھیرتا رہتا ہوں‘‘ (ترجمہ)
بلاشبہ ایسا ہی ہمیشہ دیکھا گیا ہے۔ اگر شریف برادران نے نہیں کئے تو آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کوئی جرم تو ضرور سرزد ہوا ہے۔ کوئی قصور تو ہوا ہو گا۔ میں نے ایک واقعہ پڑھا ہے کہ جب شریف برادران پاکستان سے جلاوطن ہوئے تو وہاں اکثر سوچتے تھے کہ آخر ان سے کونسا جرم سرزد ہواہے جس کی انہیں سزا ملی ہے۔ انہوں نے یہ بات اپنی اہلیہ مرحومہ سے کی اور بتایا کہ ایک بار فیصل آباد میں کسی آفیسر سے انہوں نے بہت زیادتی کی تھی اور اسے سزا کے طور پر واش روم میں بند کر دیا گیا تھا۔ انہیں یہ احساس رہا اور جب پاکستان واپس آئے تو میاں نواز شریف کی اہلیہ مرحومہ ان کے گھر گئیں اور کی گئی زیادتی پر دکھ کا اظہار کیا اسی طرح شہباز شریف کی گرفتاری دیکھ کر ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آ گئے‘ ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کا جینا حرام ہو گیا تھا۔ ان پر اینٹی کرپشن کے ذریعے جھوٹے مقدمات درج ہوئے۔ ان کو گرفتار کرنے کے لئے اسلام آباد ان کے گھر پنجاب پولیس بھیجی گئی۔ قصور یہ تھا کہ وہ ہلّہ دودھ کے اعزازی چیئرمین تھے۔ لاہور سے ہلّہ دودھ ختم کر کے شہباز شریف کے بچوں نے چنیوٹ سے دودھ دہی لا کر بیچنا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنی ٹیم اور ہلّہ دودھ سے دور رہیں ورنہ نتائج کیلئے تیار رہیں۔ ان کے ملازمین پر مقدمات بنائے گئے۔ محکمہ لائیو سٹاک کے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جاتارہا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میرے والد چوہدری الطاف مرتے دم تک اتفاق فاؤنڈری کے لیگل ایڈوائزر رہے۔ ذاتی جان پہچان تھی۔ خود میں نواز شریف کے دور میں فیڈرل سیکرٹری رہا۔ ایک لمحے کیلئے بھی ان شریفوں نے میرے والد کے برسوں کے تعلق کا لحاظ نہیں کیا۔میاں شہباز شریف نے پنجاب کی خدمت کی۔ پنجاب نے ترقی کی اگر یہ سیاسی انتقام ہے تو پھر انہیں نہیں گھبرانا چاہیے بلکہ یہ دکھ کے بادل چھٹ جائیں تو ایسے لوگوں سے ضرور ملیں۔جنسے دانستہ یا نا دانستہ زیادتیاں ہوئی ہوں۔ اپنے بیانیے پر قائم رہیں اور شہباز شریف جان چکے ہونگے کہ اگر محاذ آرائی جاری رکھی گئی تو اب باریاں نہیں لگنے والی بلکہ کچھ اورہی ہو گا۔ تحریک کیلئے کارکن درکار ہونگے اور اسکے لئے باغیوں کو باہر نکلنا ہو گا داغیوں کا کوئی کام نہیں ہے۔