آئین غلط ہے تو پھر کشمیر کا بھارت سے الحاق بھی غلط ہے
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے قومی سلامتی کے بھارتی مشیر اجیت دول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ کہہ کر کشمیریوں کی پیٹ میں پھر چھرا گونپ دیا ہے کہ جو آئین کشمیر کیلئے ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ،یہ نہیں ہونا چاہئے۔دول اور بھارتی حکومت کو جواب دیتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا اگرآئین غلط ہے تو پھر الحاق بھی غلط ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے ہٹلر کی طرح لال قلہ سے ا علان کیا کہ ہم کشمیر میں انتخابات کرانا چاہتے ہیں ،یہ ٹھیک بات ہے مگر آپ 35A اوردفعہ 370 آئین کو ختم کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور ایسے میں کس طرح لوگوں سے ووٹ مانگنے جا سکتے ہیں۔یہ تو واضح ہے کہ جب تک بھارتی حکومت دفعہ 35Aپر اپنا موقف صاف نہیں کرتی تب تک پنچایتی بلکہ اسمبلی انتخابات بھی ممکن نہیں۔
پاکستانی حکومت نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ۔ اگر بھارت دعوت قبول کر کے مذاکرات شروع کر دیتا تو ایک نیا رشتہ دونوں ممالک کے درمیان شروع ہوجاتا اور یہ رشتہ کشمیریوں کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ کشمیریوں کے مسائل دوستی اور بات چیت سے ہی حل ہوں گے۔مذاکرات کے اس عمل میں میڈیا کا اہم رول بنتا ہے، مگر کچھ بھارتی ٹیلی ویژن چینل ایسے ہیں جو نہیں چاہتے بھارت اور پاکستا ن میں بات چیت ہو جبکہ کچھ ایسے مفاد پرست لوگ ہیں جو نہیں چاہتے ہیں کہ امن لوٹ آئے۔
جب واجپائی جیساآر ایس ایس کا لیڈر پاکستان کے لاہور شہر میں جا کر یہ کہتا ہے کہ میں بھارت کا لیڈر ہوں او ر بھارت کی عوام یہ قبول کرتی ہے کہ پاکستان ایک ملک ہے اور ہم آپ کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے، تو بھارتی حکومت کو یہ الفاظ نہیں بھول جانے چاہیں۔ آج اگرپاکستان یہ صاف طور پر کہہ رہا ہے کہ ہم دوستی چاہتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتا ۔
فاروق عبداللہ نے مودی حکومت کی انتہا پسندی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کسی مسلمان نے کبھی کسی ہندو سے نہیں کہا کہ تم اپنا راستہ بدلو ،تم جس طرح پوجا کرتے ہو تو کرو ،جس مندرمیں جانا چاہتے ہو جاؤ ،کسی نے نہیں روکا، مگر جب یہ لوگ ہم کو یہ کہتے ہیں کہ نماز اس طرح نہیں پڑھ سکتے ، اذان نہیں دے سکتے تو یہ گاندھی کا ہندوستان تو نہیں، آپ گاندھی کے ہندوستان کو بدلنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں سب مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور سب کا مقام اعلی ہے اس لئے نفرتیں کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اگر وطن کو بچانا ہے تو سب مذاہب کی عزت کریں اور ہم سب کو جینے کا حق دیں جو ہمارے آئین نے ہمیں دیا ہے۔
آج کل کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کیلئے بھارتی حکومت کوشاں ہے۔ اس مسئلے پر نیشنل کانفرنس نے سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کیلئے ایک میٹنگ کی۔ میٹنگ کا مقصد ریاست کے اسپیشل اسٹیٹس سے کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ پر مشترکہ طور پر آواز اٹھانا ہے۔اس دوران نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے مرکزی حکومت کو اس معاملہ میں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی تو کشمیر میں وہ ہو گا جو کبھی نہیں ہوا۔
چندماہ پیشتر مودی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر موقف پیش کیا گیاتھا جس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ہندوستانی یونین میں کسی بھی ریاست کے انضمام اور ریاست کو اسپیشل اسٹیٹس دیا جانا، ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ اگر آرٹیکل 35 اے پر بڑے پیمانے پر بحث ہوتی ہے تو اس کے ہر قانونی پہلو پر بحث ہونی چاہئے۔ اس کے تحت کشمیر کے الحاق پر بھی بحث کی جانی چاہئے۔ ریاست کے اسپیشل اسٹیٹس سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں مکمل اپوزیشن متحد ہے اور ہم سب ایک ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ ہندوستانی آئین میں کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کو باقاعدہ رکھا گیا ہے۔ اسے کسی بھی حال میں چھیڑا یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھروسے اور اعتماد کی قانونی دفعہ ہے۔
آرٹیکل 35 اے کے تحت آئین میں یہ طاقت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو دی گئی ہے۔ اس کے تحت وہ اپنی بنیاد پر مستقل شہری کی تعریف طے کرے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں مختلف حقوق بھی دئے جاسکتے ہیں۔ دفعہ 370 جموں و کشمیر کو کچھ خصوصی حقوق دیتا ہے۔ 1954 کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کر دیا گیا تھا۔بھارتی آئین کی یہ دفعہ غیرکشمیریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے، نوکریاں حاصل کرنے یا کشمیری شہریت حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ شق ختم کی گئی تو کشمیر فلسطین بن جائے ، کیونکہ بھارت کے کروڑوں ہندو یہاں آباد ہوجائیں گے اور کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں بدل جائے گا۔
کشمیری تاجر امجد بٹ کہتے ہیں: ’اگر یہ شق ہٹائی گئی تو یہ کشمیر پر نیوکلیئر بم گرائے جانے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔‘ سپریم کورٹ میں اس شق کو چیلنج کرنے والی این جی اوز یا افراد آر ایس ایس کے حامی ہیں اور حکومت ہند نے اس سلسلے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے، حالانکہ حکومت عموماً آئین کی کسی شق کو چیلنج کیے جانے پر عدالت میں اس کا دفاع کرتی ہے۔دراصل بی جے پی کی سوچ ہے کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی اسی دفعہ 35A کی وجہ سے یہاں ہند مخالف جذبات اور علیحدگی پسند رجحانات پروان چڑھتے ہیں، اور اگر کشمیر کا مکمل انضمام بھارتی وفاق میں ہوجائے تو کشمیریوں کی خواہشات بھارت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گی۔
حریت رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمرفاروق اور یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کو ہٹانے کا مقصد مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو زائل کرنا ہے۔ تاہم ہند نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ کشمیر اور بھارت کے درمیان آئینی رشتوں کو ختم کر کے بھارت کشمیر پر اپنا قانونی حق کھو دے گا۔ لیکن کشمیری سیاست کے سبھی دھڑے فی الوقت سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کی شناخت اور ان کی 'ڈیموگرافی' کے خاتمہ پر کمربستہ ہے۔