امریکہ کی ذہنی اور مالی غلامی سے نجات کا موقع
گذشتہ سے پیوستہ
مگر امریکہ پاکستان سے ایسا تعاون چاہتا ہے جیسا تعاون ماضی قریب میں مشرف نے کیا پرویز مشرف نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تباہ کردیا پرویزمشرف نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملک کے مفاد کودائو پر لگایا پرویز مشرف نے عارضی فائدے کی خاطر پاکستان کے دائمی مفادات کا سودا کیا مگر اب عالمی اور اس خطے کے حالات پاکستان کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ مشرف برانڈ مہم جوئی سے کام لے اس لیے عمران حکومت صبر سے کام لے رہی ہے عمران حکومت کا خیال ہے کہ یہ طوفان گزرجائے گا ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی تبدیل ہوجائے گی مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت کی پالیسی ایک صدر کی پسند اور ناپسند کے تابع نہیں ہے امریکہ کی ریاستی پالیسی کو تو اس کا پاپولر صدر بھی اپنی خواہشات پر نہیں چلاسکتا ڈونالڈٹرمپ اپنے ملک کا غیرمقبول صدر ہے امریکی عوام ٹرمپ کے مخالف ہیں ٹرمپ امریکہ کے خاموش ووٹرز کی معرفت اقتدار میں آیاہے امریکہ کے سرگرم اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کاکھل کر اظہار کرنے والے لوگ ٹرمپ کے سخت مخالف ہیں ٹرمپ کی جیت کو امریکہ کی شعوری شکست سمجھنے والے لوگ ابھی تک خاموش ہیں ان کا خیال ہے کہ سسٹم کے وسیع مفاد میں انہیں صبر کا مظاہرہ کرناچاہیے امریکہ کا خیال ہے وہ ٹرمپ کے منتخب ہونے والے نقصان سے کچھ فائدے حاصل کرے اس لئے امریکہ کی خواہش ہے کہ ایک غیر مقبول صدر کی آڑمیں غیر مقبول اقدام اٹھائے ان غیر مقبول فیصلوں میںایک غیر مقبول فیصلہ پاکستان کے ساتھ الجھنا بھی ہے امریکہ اس کیلئے ٹرمپ کے سائے میں وہ سارے فیصلے کرنا چاہتا ہے جو امریکہ جیسے ملک کیلئے بہت مشکل ہے امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے اس کے ساتھ یورپ کے ممالک بھی ہیں یورپ کے ممالک کو امریکہ نے جس طرح افغانستان میں نقصان سے دوچارکیا اور جس طرح وہاں امریکہ ناکام ہوا اس سے اس کے یورپی اتحادیو کوسخت مایوسی ہوئی امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں بھی یورپی اتحادیوں کو ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا اس وقت امریکہ دنیا میں تنہا ہورہا ہے افریقہ میں امریکہ کیلئے ایک تلخ احساس ہے ایشیا میں امریکہ کو پسند کی نظر نہیں دیکھا جاتا یورپی ممالک کی نظر میں امریکہ اب ایک ڈھلتا ہوا سورج ہے اس لیے یورپ کے ممالک امریکہ کا کھل کر ساتھ نہیں دیں گے یورپ کے ممالک اب امریکہ کو من مانی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ بات صرف پاکستان اور جنوبی ایشیا کی نہیں ہے پوری دنیا میں یورپی ممالک کے مفادات ہیں اور وہ اپنے مفادات امریکی خواہش پر قربان نہیں کرسکتے امریکہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ روس اب اپنی راکھ سے نیا جنم لے رہا ہے ۔روس امریکہ کویہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ عالمی میدان میں اپنے مفادات کیلئے چالیں چلتا رہے اس دنیا میں صرف امریکہ اور اس کانیا اتحادی بھارت نہیں ہے اس دنیا میں جرمنی بھی ہے فرانس بھی ہے اٹلی بھی ہے جاپان بھی ہے اور وہ ترکی بھی ہے جو اسلامی دنیا میں ایک بھرپور کردار اداکرنے کی کوشش میں مصروف ہے بھارت نے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی اور اور خود امریکہ کی گود میں بیٹھ گیا بھارت اور امریکہ گٹھ جوڑ کے ذریعے جو فوجی حساس معلومات کے تبادلے کررہاہے اس سے خطے میں طاقت کا توازن مزیدبگڑ ے گا جو علاقائی امن کیلئے تباہ کن ہوسکتا ہے پوری دنیا کے ممالک جنوبی ایشیا میں کھیلے جانے والے اس نئے کھیل کو صر ف تماشائی بن کر نہیں دیکھ سکتے۔یہ وہ دنیا ہے جس نے امریکہ کے اس فیصلے پر صرف مایوسی کا نہیں بلکہ غصے کا اظہار بھی کیا جب امریکی صدرنے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جس طرح امریکہ اپنے مذکورہ فیصلے میں تنہا رہ گیا اسی طرح وہ جنوبی ایشیا میں بھی تنہا رہ جائے گا کیوں کہ یورپ کے ممالک چین مخالف اس کھیل میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتے چین کے خلاف امریکہ اور بھارت کا اتحاد جب کھل کر سامنے آئے گا تب دنیا میں اسکی مخا لفت بھی منظر عام پر آئے گی اس قت توبہت ساری باتیں پردے کے پیچھے ہیں وہ پردہ آہستہ آہستہ سرک رہا ہے جب یہ پردہ مکمل طورپر ہٹ جائے گا تب ممکن ہے کہ جنوبی ایشیا کے اسٹیج پر بھارت اور امریکہ تنہا نظرآئیں گے۔