سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خشوگی 2 اکتوبر کو شادی کے دستاویزات لینے کے لیے استنبول میں واقع اپنے ملک کے سفارت خانے گئے اور وہ وہاں سے پھر واپس نہیں نکلے۔ استنبول میں حکام کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی چاردیواری میں انھیں مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا لیکن سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ صحافی خشوگی سفارتخانے سے نکل گئے تھے۔ایک زمانے میں خشوگی سعودی عرب کے شاہی خاندان میں مشیر ہوا کرتے تھے لیکن پھر وہ تیزی سے سعودی حکومت کی نظرِ عنایت سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ گذشتہ سال سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کئی مرتبہ سعودی حکومت پر کڑی تنقید کر چکے ہیں۔ جمال کے مطابق درجنوں افراد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بظاہر مخالفین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حراست میں لیے گئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاح کے حوصلہ مندانہ پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں۔انھوں نے ایک مرتبہ سعودی حکومت کے بارے میں لکھا کہ میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔جمال خشوگی نے اپنے آخری کالم میں یمن میں سعودی عرب کی شمولیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا آخری کالم 11 ستمبر کو شائع ہوا تھا اور گزشتہ جمعے کو اخبار نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خالی کالم کی اشاعت کی ہے۔
اب جبکہ ترکی میں مقیم جلاوطن سعودی صحافی جمال خشوگی کے مشکوک انداز میں قتل کو چند دن گزر چکے ہیں۔اُن کی لاش چند دن پہلے ٹکڑوں میں تقسیم شدہ تھی جو پولیس کو ملی۔ ترکی کے سکیورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ انہیں قونصل خانے کے اندر ہی شدید ٹارچر کے بعد قتل کیا گیا اور اس کے بعد آری کے ذریعے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ دوسری طرف سعودی حکام نے اس دعوے کو مسترد کر دیا لیکن ابھی تک انہوں نے اس صحافی کی موت کے بارے میں کوئی واضح موقف نہیں اپنایا ہے۔ سعودی حکام کی خاموشی سے اس موقف کو تقویب حاصل ہو رہی ہے کہ سعودی حکمران جمال خشوگی کے قتل میں ملوث ہیں۔
اب جمال خشوگی قتل کیس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہو چکی ہے ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی اس سلسلے میں سعودی فرمانروا سے بات ہوئی ہے، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس قتل میں تیسری طاقت کے ملوث ہونا خارج ازامکان نہیں ہے۔ شاہ سلمان سے بات کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ سعودی حکومت اس بات سے بالکل لاعلم ہے کہ خشوگی کے ساتھ کیا ہوا۔ اسی طرح صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ’’میں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے بات کی ہے لیکن انھوں نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ ہمارے سعودی شہری کے ساتھ کیا ہوا‘‘۔امریکی صدر کے مطابق وہ اس سوال کے جواب کے لیے ترکی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اور اسی مسئلے کے حل کے لیے امریکی وزیر خارجہ پومپیو بھی سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ اورآخری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز پہلی مرتبہ ترک حکام نے اس عمارت کی تلاشی لی ہے جہاں سے سعودی صحافی خشوگی لاپتہ ہوئے ہیں۔صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی کے بعد ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ برطانیہ اور امریکہ، سعودی عرب میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے بائیکاٹ پر غور کر رہے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح اور دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب اس کا ذمہ دار ہے تو وہ اسے اس کی سزادیں گے۔جمال خشوگی کے ساتھ جو ہوا اس کے نتیجے میں کئی سپانسرز اور میڈیا ہاسز نے رواں ماہ ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس سے خود کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد کبھی مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی سے بھی بلند ہوجاتے ہیں اور کبھی پستیوں کی جانب جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے امریکا اورسعودی عرب کے تعلقات زیادہ تر بہترہی رہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس 70 سالہ اتحاد کی سب سے اہم بات تیل کے بدلے سکیورٹی کی فراہمی رہی ہے۔ تاہم اس عرصے میں دونوں ممالک کے روابط میں اتار چڑھاؤ آیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے سٹریٹجک روابط ماڈرن سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے زمانے سے ہیں جب وہ امریکی صدر فینکلن روزوولٹ سے 1945 میں امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملے۔ سوئز کنال میں ہونے والی اس ملاقات میں دو اہم امور پر بات ہوئی۔ ایک فلسطین میں یہودی ملک کا قیام اور دوسرا سعودی امریکی معاہدہ جس کے تحت امریکہ سعودی عرب کو سکیورٹی فراہم کرے گا اور بدلے میں سعودی تیل تک امریکہ کو رسائی دی جائے گی۔سعودی عرب نے اپنی پہلی تیل مراعات کے حوالے سے معاہدہ 1933 میں امریکی کمپنی سٹینڈرڈ آیل کمپنی کے ساتھ کیا۔ پانچ سال بعد سعودی عرب کے مشرقی علاقے دمام سے تیل کے ذخائر برآمد ہوئے۔
1944 میں عریبیئن امریکن آئل کمپنی (ارامکو) قائم کی گئی جو 1952 تک نیو یارک میں واقع رہی۔ سعودی حکومت نے 1980 میں اس کمپنی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1973 کی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ میں اوپیک نے ان ملکوں کو تیل فراہم کرنے پر پابندی عائد کر دی جنھوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل تھا۔ اس پابندی نے امریکہ اور عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔1979 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین کی فوج تیار کی گئی۔ اس فوج کی تیاری میں امریکہ کا ساتھ دیا سعودی عرب اور پاکستان نے۔ اس فوج میں ہزاروں سنی جنگجو شریک ہوئے بشمول اسامہ بن لادن جو بعد میں القاعدہ کے سربراہ بھی بنے۔1991 میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لیے امریکہ نے سعودی عرب فوج بھیجی۔ چند سخت موقف رکھنے والی سعودی مذہبی شخصیات نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کی مذمت کی۔ امریکی فوج کا سعودی عرب سے انخلا 2003 میں ہوا جب عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان انسادا دہشت گردی کے حوالے سے روابط مزید مضبوط ہوئے اور سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سعودی عرب امریکہ سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات 11 ستمبر 2001 میں امریکہ پر حملے کے بعد خراب ہوئے جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جن 19 ہائی جیکروں نے جہاز ہائی جیک کیے تھے ان میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔2003 میں سعودی عرب نے امریکہ کی جانب سے عراقی صدر صدام حسین کو ہٹانے کے فیصلے کی مخالفت کی۔ اسی لیے سعودی عرب امریکی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ سعودی عرب کا کہنا تھا کہ صدام حسین کو ہٹائے جانے سے عراق فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا۔2015 میں امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر سعودی عرب کو احساس ہوا کہ اس کو دھتکارا گیا ہے۔ سعودی عرب نے دیگر تیل سے مالا مال سْنی عرب ملکوں کے ساتھ مل کر جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اس نے بحرین میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیجی، مصر میں عبدالفتح السیسی کی جانب سے حکومت الٹنے کی حمایت کی، اور یمن میں جاری خانہ جنگی میں اپنی فوج کو اتارا۔ستمبر 2016 میں امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا جس کے تحت ستمبر 11 کے حملوں میں ملوث ہونے پر سعودی عرب پر امریکی شہری مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ اس بل کو رکوانے کے لیے وائٹ ہاؤس اور سعودی عرب نے بے حد کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ سعودی عرب نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو سعودی عرب امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری ختم کر دے گا۔صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔لیکن جمال خشوگی کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ پر امریکی میڈیا اور امریکی عوام کا بہت زیادہ دبائو ہے کہ وہ سعودی عرب کو اس فعل پر سزا دیں لیکن اُمید ہے امریکا اور سعودی عرب دوبارہ تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024