انٹری ٹیسٹ کا جواز
مکرمی :حکومت نے صحت اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے اہل وطن کو تبدیلی کا اشارہ تو دیا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے گذشتہ دور سے اب تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کو پمز ہستپال کے ساتھ الحاق برقرار رکھا جائے گا یا نہیں البتہ اب خبروں کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ حکومت چار ماہ میںشہید زیڈ اے بھٹو یونیورسٹی اپنا میڈیکل کالج قائم کرئے ۔ وفاق کے زیرنگرانی چلنے والے سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل اینڈڈنٹیل کالجز میں داخلوں کے لئے قبل ازیں انٹری ٹیسٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن لیا کرتا تھا اس مقصد کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کوئی فیس نہیں لیا کرتا تھا اب پتہ چلا ہے کہ وفاق کے زیر اہتمام چلنے والے پرائیویٹ میڈیکل اینڈ دنٹیل کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ نمز(Nums) لے گااور اس انٹری ٹیسٹ کے لئے امیدوار کو تین ہزار روپے انٹری ٹیسٹ کی فیس بھی ادا کرنا پڑے گی۔ محتاط اندازے کے مطابق 30 ہزار سے زائد طلباء انٹری ٹیسٹ میں شریک ہوں گے جب کہ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے طلباء اس کے علاوہ ہونگے۔اس طرح انٹری ٹیسٹ سے کرڑوں روپے نمز یونیورسٹی کو حاصل ہونگے۔سوال یہ ہے کہ ایچ ای سی کے انٹری ٹیسٹ میں کیا خرابی تھی جو وہ بغیر کسی معاوضے کے یہ خدمات انجام دے رہی تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو نوازے کے لئے یہ تبدیلی کی گئی ہے؟ اگر نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز یہ کام بغیر کسی معاوضے کے کرتی تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ خدمت ہے حالانکہ ایچ ای سی بھی وفاقی حکومت کا ہی ادارہ ہے کوئی پرائیویٹ ادارہ نہیں تھا۔ لیکن تین ہزار روپے سے کرڑوں روپے جمع کرنے کا فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ خاکسار کی رائے میں جس طرح پی ایم ڈی سی کا مروجہ قانون ہے کہ میٹرک کے دس فیصد نمبر، ایف ایس سی ک چالیس فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے پچاس فیصد نمبر ملا کر امیدواروں کو داخلہ دیا جاتا ہے اور یہ طریقہ کار پی ایم ڈی سی کی پالیسی کا مظہرہے ۔ اگر میڈیکل کالجز مذکورہ فارمولے کی روشنی میں اپنے طور پر ہی انٹری ٹیسٹ لے لیا کریں تو اس طریقہ کار میں کیا قباحت ہے اس طرح حکومت کا وقت بھی بچایا جا سکتا ہے اور انٹری ٹیسٹ کی تشہیری مہم کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اگر یہ ذمہ داری پرائیویٹ میڈیکل اینڈ دنٹیل کالجز کو ہی دے دی جائے تو کوئی بھی کالج نہیں چاہے گا کہ اس کے کالج کا رزلٹ خراب ہو ۔ اس طرح وہ زیادہ ذمہ داری سے داخلوںاہتمام کر سکتے ہیں۔وگرنہ ایچ ای سی کے انٹری ٹیسٹ میں کیا قباحت تھی کہ بچوں کے والدین پر تین ہزار کو مفت کو بوجھ ڈال کر کونسی خدمت ہے۔اسلام آباد کے پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں اس وقت 950 کے قریب ایم بی بی ایس کی نشستیں ہیں جب کہ بی ڈی ایس کی 225 سیٹیں ہیں۔اگر حکومت پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈنٹیل کالجز میں داخلوں کے لئے انٹر ی ٹیسٹ کا کام ایچ ای سی کے ہی سپرد کرئے تو اس سے ہزاروں طلباء اور طالبات کے والدین پر اضافی مالی بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ نت نئے تجربات کا کوئی مقصد نہیں ہے۔( ریاض احمد ملک ، اسلام آباد)