کافی کا صرف ایک کپ
خبروں کے مطابق ضمنی انتخابات میں میاں نواز شریف شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا ووٹ نہ ڈال سکے۔ گو میں ایک انتہائی عام سی بات سے کالم شروع کر رہا ہوں مگر اس خبر نے ماضی کا ایک اہم واقعہ یاد کروا دیا ۔ مرحوم مولانا کوثر نیازی سے میری نیاز مندی تھی ان سے تعلقات کا آغاز 1975/76 ء سے ہوا جب میں گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات میں سٹودنٹس یونین کا صدر تھا۔ بحیثیت وزیر وہ جب بھی کسی جلسہ سے خطاب کرنے ضلع گجرات آتے تو نہ صرف ان کے ہمراہ ہوتا بلکہ طالب علم رہنما کی حیثیت سے وہاں میرا بھی خطاب ہوتا۔ بعد میں مولانا صاحب سے تعلقات گہرے ہو گئے جو ان کی آخری سانس تک بحال رہے متعدد بار وہ میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور باالخصوص آخری بار وہ میری والدہ کی وفات پر تعزیت کے لیے تشریف لائے اس وقت وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔ اس طرح سردار عبدالقیوم سے پہلی ملاقات 1973 ء میں گورنمنٹ انٹر کالج جہلم میں ہوئی ۔ میں ان دنوں ایف ایس سی کررہا تھا اور سردار صاحب بحیثیت صدر آزادکشمیر ہمارے کالج سالانہ تقریبات پر بطور مہمان خصوصی مدعو تھے۔ سردار صاحب سے بھی بعد میں ملاقاتیں رہیں مگر ان کے ساتھ تعلقات کی وہ وسعت اور گہرائی نہ تھی۔ سردار صاحب بھی بہت اچھے مقرر تھے مگر جو کمال مولانا کوثر نیازی کو حاصل تھا وہ اس وقت کسی اور سیاسی شخصیت کو حاصل نہ تھا ۔ اتفاق سے ایک بار اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں سردار صاحب صدارت فرما رہے تھے اور مولانا کوثر نیازی مہمانِ خصوصی تھے۔ مقررین میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ پروٹوکول کے مطابق مولانا کوثر نیازی نے پہلے خطاب کیا۔ان کی تقریر بہت ہی جاندار تھی جب اختتام پذیر ہوئی تو ہال میں حاضرین نے بہت دیر تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ۔ پھر باری سردار عبدالقیوم کی تھی۔ رسمی جملوں کے بعد فرمانے لگے ، کسی بھی تقریب میں دو باتیں اہم ہوتی ہیں ۔ ایک تقریر اور دوسرا کھانا ۔ مولانا کوثر نیازی صاحب کی تقریر کے بعد اب کسی اور تقریر کی گنجائش ہی نہ ہے چنانچہ آئیںکھانا کھاتے ہیں ۔ دوران ڈنر مولانا کوثر نیازی نے سردار صاحب سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی بڑے اچھے تعلقات تھے اور اب میاں نواز شریف سے بھی ۔ کوئی ایسا واقعہ سنائیں کے جس سے ہم ان دونوں کی سیاسی بصیرت ، عملی زندگی اور حالات پر گہری نظر کا موازنہ کر سکیں۔ کچھ لمحے سردار صاحب نے سوچ کر کہا ، اتفاق سے چند ہی دن قبل میاں نواز شریف نے بھی بھٹو صاحب کے بارے میں کچھ اس طرح کا سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی پاکستان بارے سوچ کیسی تھی ؟ میاں صاحب کو جو جواب دیا وہی دھرا دیتا ہوں ، سردار صاحب کہنے لگے ۔ ایک دفعہ بحیثیت صدر آزادکشمیر میں نے بھٹو صاحب کو آزاد کشمیر آنے کی دعوت دی ۔ شیڈول دیکھ کر کہنے لگے کہ آنے والے ایک آدھ ماہ میں یہ خاصا مشکل ہے تاہم میں کچھ وقت نکال کر اگلے چند دنوں مین اسلام آباد کشمیر ہائوس آسکتا ہوں ۔ خوشی سے کہا کہ پھر رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہو گا۔ آپ کو خصوصی کشمیری کھانے جس میں گشتابہ ایک بے حد لذیز ڈش ہے وہ بھی شامل ہو گی ۔ مگر بھٹو صاحب نے کھانے کی حامی نہ بھری ۔ خیر جس دن بھٹو صاحب نے آنا تھا ہم نے احتیاطً چند کھانے بھی تیار کروا دئیے ۔ بھٹو صاحب آئے گھنٹہ بھر قیام فرمایا بہت باتیں ہوئیں مگر کھانے کے لیے رضا مند نہ ہوئے اور بڑے اصرار پر کافی کا صرف ایک کپ پیا۔ مضطرب ہو کر ایک دو بار پوچھنے پر کہنے لگے سردار صاحب دراصل آج رات میں نے ہنری کسنجر ( امریکی وزیر خارجہ ) سے قومی امور پر نہایت اہم بات کرنا ہے چنانچہ میں (Alert) رہنا چاہتا ہوں ۔ کھانے سے شاید میری طبیعت بوجھل ہو جائے اور جس طرح کی گفتگو کا تقاضا اس وقت میرا ملک اور قوم کررہی ہے شاید نہ ہو سکے ۔ چنانچہ میزبانی کا بے حد شکریہ ، میں صرف اس لئے احتیاط کر رہا ہوں … یہ بات سن کر میاں نواز شریف بولے۔’’ لو جی اے وی کوئی گل اے ۔ اَسی جب تک دو تین پیالے تے نان نہ کھالئیے ۔ساڈی تے اکھ ہی نہیں کھلدی ۔‘‘ ایک بھرپور قہقہ لگا اور اس کے ساتھ ہی محفل برخواست ہو گئی ۔ اب مولانا صاحب اور بھٹو دونوں شخصیات اس دنیا میں نہیں ہیں۔ دعا ہے کہ د ونوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ سردار صاحب نے تو محض ایک واقعہ سنایا مگر اس سے رویوں کا پتا چلتا ہے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو دنیا کی ایک مانی شخصیت تھیں اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنی جان کا نذرانہ تو دے دیا مگر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ جب کہ میاں نواز شریف صاحب کا سردار صاحب کو جواب ان کی شخصیت کا مظہر ہے ۔ ضمنی انتخاب کے دن وہ گھر سے شناختی کارڈ لے کر جانا بھول گئے ۔ ان کی اپنے امیدوار اور پارٹی سے اخلاص کو سمجھنے کے لئے محض ان کا یہی رویہ ہی کافی ہے ۔ اگر آپ تھوڑا سا ماضی میں جھانک کر ان کی اور صدر اوباما کی ملاقات کو ذہن میں لائیں توآپ کو یاد آئے گا کہ کس طرح وہ جیب سے چیٹیں نکال کر گفتگو کررہے تھے۔
موجودہ حالات میں ہماری نئے وزیراعظم عمران خان سے بھی یہ گذارش ہے کہ وہ اپنے پچاس ر وزہ حکمرانی کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں ابھی تک فیصلہ سازی میں بے شمار غلطیاں ہو چکی ہیں ۔ ان کو دوست کرنے کا ابھی بھی ان کے پاس وقت ہے ۔ عجلت کے فیصلوں سے گریز کریں اور اپنی ٹیم میں جہاں تبدیلیوں کی ضرورت ہے ان پر فوری طور پر کام کیا جائے۔ قوم ابھی تک ان کی پشت پر کھڑی ہے مگر کہاں تک ! ماضی میں جو کچھ وہ فرمایا کرتے تھے اگر ان پر عملدرآمد نہ ہوا تو قول اور فعل کے تضاد کی بڑی مہنگی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اللہ کرے وہ وقت نہ آئے مگر کھلے دل سے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی شروعات درست نہ ہے ۔ وہ تنہائی میں بیٹھ کر کافی کا صرف ایک کپ پاس رکھیں اور روز کا تجزیہ کریں اور یہی سوچیں کہ انہوں نے بھی بھٹو صاحب کی طرح ہنری کسنجر سے بات کرنا ہے۔