حوّا کی بیٹی
دنیا میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات اورسانحات کے کرداروں میں سے چند کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جن پہ تقدیر مسلسل تف کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسے کرداروں سے ہرگز تہی نہیں۔ آئے دن ایسے کردار اپنی بدکرداری سے ماحول میں تعفن پیدا کرتے ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور میں دو کمسن بیٹیوں سے زیادتی کرنے والا درندہ صفت باپ بھی اسی معاشرے کا ایک بھیانک کردار ہے، جسے انسانیت پہ ایک بدنما دھبے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جو بیٹیوں پر وحشیانہ تشدد، ان کے چلّانے اور کانپنے سے حظ اٹھاتا رہا، اور یہ شرمناک فعل برسوں جاری رہا۔ جبر کے ماحول میں بچیوں کی والدہ اندر ہی اندر کڑھتی رہی، ان کی آہوں سے وہ دیس بھی لرز گیا ہو گا۔ دریدہ دل حوا کی بیٹیوں کی ماں بھی خوف اور جبر کے گہرے سائے میں سانس لیتی رہی اور بالآخر جابر کے خلاف سینہ سپر ہوگئی۔ آخرکار ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہی ہوتا ہے اور باطل کا انکار کرتے، حق کی بالا دستی اور عملداری کے لئے رسمِ شبیری ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ بلاشبہ اسی میں بقاء ہے۔
بنتِ حوّا اس سوچ میں گم ہے کہ زندگی کا دامن اس کے لئے اس قدر تنگ کیوں ہے؟ اس کے رحم سے جنم لینے والی دنیا انتہاء کی بے رحم کیوں ہے؟ وہ انسان کی بے حسی پہ ماتم کناں ہے۔ مادرِ شکم میں بھی وہ تلملاتی ہے، کہ جب اس کاباپ اس کی ماں کو آئندہ بیٹی کی صورت میں اولاد جنم دینے کے طعنے دیتا اور اس پہ جبر کرتا ہے۔وہ طعن اور ذلت پہ مبنی جملے سن کر دنیا میں ہرگز نہیں آنا چاہتی۔ وہ کتراتی ہے،وہ انکار پہ مصر ہے۔ اس پردے کے ماحول میں بھی اس پہ خوف طاری ہے۔ وہ دنیا میں قدم دھرنے سے پہلے ہی مرد کی سفاکیت کا اندازہ لگا لیتی ہے۔ جب باپ اس کی ماں پر تشدد کرتا ہے تو ماں کی چیخ و پکار کے ساتھ اس کی نحیف آواز بھی عرش معلیٰ تک کا سفر کرتی ہے۔ آواز، آواز سے ملتی ہے تو فریاد کا روپ دھار لیتی ہے۔
دنیا میں ظہور ہونے کے بعد اس پر لعن طعن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے جنم لینے پہ ہر سُو مایوسی کے سائے بڑھتے اور گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بدقسمت ہونے کے طنز میں ابال آ جاتا ہے۔ اس کی آمد کو برا شگون قرار دیا جاتا ہے۔ زندہ درگور کیا جاتا اور کہیں جلا دیا جاتا ہے، اور اس کے جینے کی صورت میں اسے ہوس، وحشت اور سفاکیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس پہ مسلسل ظالمانہ تشدد کیا جاتا اور گویا زندگی سے دھتکار دیا جاتا ہے۔ اسے سرعام رسوا بھی کیا جاتا ہے۔ لوگ اسے محض ہوس کی نگاہ سے دیکھتے اور چاہتے ہیں۔ حظ اٹھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ درندہ صفت، ایمان سے عاری باپ کی آنکھوں پہ پردہ پڑ جاتا ہے۔ اس کی سفاکی پہ زمیں کانپتی ہے، آسماں دھاڑیں مارتا ہے، لیکن اس پتھر دل کو کچھ نہیں ہوتا جسے ماں اپنے شکم میں پالتی ہے، اپنے جسم سے اس کو وجود عطا کرتی ہے۔ اس کی روح کو پناہ دیتی ہے۔ اسے سانس مہیا کرتی اور جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ وہی مرد جب زمین پہ قدم رکھتا اور اکڑکر چلتا ہے تو اصل ’’زمیں‘‘ کے احسانات پائوں تلے روندتا چلا جاتا ہے جو اپنے طور پہ خالق ہے، اور جسے خالقِ حقیقی نے بھی کھیتی قرار دیا، جہاں سے آئندہ کی نسل اگتی اور پروان چڑھتی ہے۔ مرد اس حوّا کی بیٹی کے وجود اور اس کے احسانات کو یکسر تسلیم نہیں کرتا جو دنیا میں ظاہر ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی اس کی آلائشوں پہ پردہ ڈالتی ہے۔حوّا کی بیٹی جبر سہہ کرمرد کی نسل کو پروان چڑھاتی ہے درحقیقت خود کو قربان کرتی ہے۔ وہ ایثار کا پیکر اور منبع ہے۔ وہ آئندہ کئی نسلوں کا حق ادا کرجاتی ہے۔ وہ خود کو مٹا کرنئی نسل اگاتی ہے۔ وہ فنا و بقاء کے مراحل یوں ہی طے کرتی چلی جاتی اور بالآخر منوں مٹی تلے سو جاتی ہے۔ یہ حوّا کی بیٹی ہی تو ہے۔