فرح کا تعلق ایران کے شہر شیراز سے ہے۔فرح کی ماں نے سابقہ ایرانی خاتون اوّل ملکہ فرح کے نام پر بیٹی کا نام فرح رکھا۔ ایرانی نژاد امریکی خاتون فرح کا خاندان شیراز میں مقیم ہے جبکہ فرح اپنے ایرانی شوہر کے ہمراہ روس سے امریکہ آئی اور ایران کے مذہبی ماحول سے آزادی کے بعد ہمیشہ کےلئے امریکہ سکونت اختیار کر لی۔ امریکہ ایران کشیدگی کے سبب ایران جاتے ہوئے خوفزدہ ہے۔ جب ملاقات ہوتی ہے کہتی ہے کہ تم پاکستانی عورتیں خوش نصیب ہو۔ ماڈریٹ معاشرہ ہے جبکہ ایران کے لوگ جبری مذہبی تسلط سے تنگ ہیں۔ ایرانی امریکی پاسپورٹ سے حسد کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی شہریت رکھنے کے مجاز ہونے کے باوجود ایرانی باشندوں کوامریکہ آنے جانے میں زیادہ ٹف ٹائم ایران امیگریشن دیتے ہیں۔ کوئی بھی جواز بنا کر امریکہ واپسی سے روک سکتے ہیں۔ ایرانی اپنے ہی وطن جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ فرح نے سعودی صحافی کے پراسرار قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایرانی بھی سعودیہ امریکہ ایران کی انتہا پسند پالیسیوں کے سبب کہیں بھی محفوظ نہیں۔ امریکی میڈیا نے سعودی صحافی کے قتل کی خبر جاری کر دی ہے۔ خشوگی کو آخری بار دو ہفتے قبل ترکی میں سعودی قونصل خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔صدر ٹرمپ نے خشوگی کی گمشدگی پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انہیں سنگ دل اور سفاک قاتلوں نے قتل کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی بادشاہ کنگ سلمان نے ان سے 20 منٹ تک فون پر بات چیت کی اور یہ بتایا کہ انہیں بالکل علم نہیں ہے کہ خشوگی کے ساتھ کیا ہوا۔
خشوگی سعودی حکمران ولی عہد پرنس محمد بن سلمان پر اپنی تحریروں میں سخت تنقید کرتے تھے۔امریکی میڈیا کے مطابق سعودی انٹیلی جنس اہلکاروں کو خشوگی کے قتل کے بعد پتہ چلا کہ ان کی گھڑی ریکارڈنگ پر لگی ہے جس کے بعد انہوں نے خشوگی کا فنگر پرنٹ لے کر گھڑی کو ان لاک کیا اور اس میں سے بعض فائلیں ڈیلیٹ کردیں۔
ایک ترک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک حکام نے سعودی صحافی جمال خشوگی پر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں تشدد اور پھر ان کے قتل سے متعلق بعض آڈیو ریکارڈنگ حاصل کرلی ہیں۔
ترک اخبار کے مطابق جمال خشوگی نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت ”ایپل“ کی دستی گھڑی پہنچی ہوئی تھی جو ان کے اس فون سے منسلک تھی جو قونصل خانے کے باہر موجود ان کی منگیتر کے پاس تھا۔ اخبار کے مطابق خشوگی نے قونصل خانے میں داخل ہوتے وقت اپنی گھڑی پر وائس ریکارڈنگ کا فیچر آن کر دیا تھا جس کے باعث ان کی گھڑی اور اس سے منسلک فون نے قونصل خانے میں ان کے ساتھ کی جانے والی تفتیش‘ مار پیٹ اور آخرکار قتل تک کے تمام واقعات کی آوازیں محفوظ کر لی تھیں۔ یاد رہے کہ جمال خشوگی سعودی شہری تھا جو اب امریکہ میں رہائش پذیر تھا اور مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کالم نگار تھا۔ 28 ستمبر کو ترکی میں سعودی ایمبیسی میں اپنے کاغذات لینے گیا۔ اس کے جانے کی ویڈیو منظرعام پر آگئی مگر وہ واپس نہیںآسکا۔ دوسری طرف خبر کے مطابق ایک پرائیویٹ سعودی جیٹ ترکی کی سرزمین میں لینڈ ہوا اور اس میں 15 آدمی جن کی ڈیوٹی تھی کہ وہ جمال خشوگی کی ”سپاری“ نکال دیں۔ جمال کو مار دیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ترکی سے غائب کر دیا گیا۔ اردگان اور ترکی کی حکومت کو بھی خاصی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر قتل چونکہ سعودی ایمبیسی میں ہوا جو بین الاقوامی قانون کے تحت سعودی عرب کی زمین تصور ہوگا۔ اس لئے ترکی پر کوئی قانونی الزام نہیں لگ سکتا۔ جمال خشوگی ہمیشہ سے سعودی رائل خاندان کے خلاف تھا اور حالیہ دنوں میں سعودی شہزادہ بن سلمان کے خلاف بہت لکھتا تھا اور سعودیہ میں جمہوریت پسندگروپ کی بنیاد رکھنے والا تھا۔ ٹرمپ حکومت اس قتل سے شدید مشکلات کا شکار ہے کیونکہ امریکی کانگریس مین ٹرمپ پر دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ اپنے ”سعودی یاروں“ کے خلاف ایکشن لو‘ ان کے خلاف اسلحے کی ڈیلیں کینسل کرو مگر امریکہ بھی کیا کرے‘ سعودیہ پر پابندیاں لگاﺅ تو ایران کو فائدہ‘ امریکہ مڈل ایسٹ اور مسلم دنیا میں ایران کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے کیونکہ ایران کسی قسم کے امریکی دباﺅ میں آنے سے انکار کرتا ہے۔ دوسری طرف چین اور روس ایران کے قریبی ساتھی۔ آخر میںسعودی شاہی خاندان سو پچاس شہری واشنگٹن میں گھس کر بھی ماردیں۔ امریکہ اپنی آنکھ بند رکھے گا۔ کیونکہ سعودیہ ایران کا بدترین دشمن اور دشمن کا دشمن ہمیشہ آپ کا بہترین دوست ہوتا ہے۔ عالمی سیاست میں عالمی طاقتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ ریاست کے مفادات کیلئے انسانی جانوں کا قتل عام‘ معمولی واقعات ہیں کیونکہ ان حقوق کی پامالی کے نتیجے میں ہی دراصل عالمی طاقتوں کا وجود مضبوط اور قائم رہتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024