چین کی ہمیں آئی ایم ایف سے مالی تعاون کے حصول میں بھی مکمل معاونت کی یقین دہانی
چین نے باور کرایا ہے کہ سی پیک سے متعلق قرضے پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ نہیں، پاکستان کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) کے ساتھ مالیاتی تعاون کی حمایت کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے گزشتہ روز اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر چین سی پیک منصوبہ میں کام کو آگے بڑھائے گا اور اس میں توسیع بھی کی جائے گی تاکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کی خود مختارانہ صلاحیت بہتر بنائی جا سکے۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان کے بقول چین آئی ایم ایف کارکن ہے اور اس حیثیت سے ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے حل کیلئے اٹھائے گئے ہر اقدام کیلئے آئی ایم ایف کی مدد و معاونت کریں۔ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری سے پاک چین تعلقات پر کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خاں سے گزشتہ روز چینی کمیونسٹ پارٹی کے وفد نے چینی وزیر سونگ تائو کی قیادت میں ملاقات کی جس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی پاکستانی عوام کیلئے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے بقول چینی صدر جن پنگ عظیم سٹیٹس مین ہیں جو پاک چین دوستی کو درست طور پر آئرن برادرز سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ پاکستان غربت اور کرپشن کے خاتمہ کیلئے چینی تجربے سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر چینی وفد کے قائد سونگ تائو نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت اقتصادی راہداری ایک اہم منصوبہ ہے جو ایک نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے اہم کردار ادا کرے گا۔ چینی وفد میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداران اور چینی سفارتخانہ کے حکام شامل تھے۔ دوران ملاقات دونوں ممالک نے باہمی روابط مزید مستحکم اور فعال بنانے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم عمران خاں نے کہا کہ انہیں اپنے دورۂ چین کے موقع پر چینی قیادت سے ملاقات کا انتظار ہے۔ چینی وفد نے گزشتہ روز اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں احسن اقبال، بیگم نزہت صادق،مرتضیٰ جاوید عباسی اور مریم اورنگزیب نے بھی ملاقات کی اور پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر چینی سفیر یائو جنگ بھی موجود تھے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ممالک کی قیادتوں نے سی پیک کے خلاف جاری سازشوں کا باہمی افہام وتفہیم اور پائیدار دوستی کے جذبے کے ساتھ فوری اور موثر توڑ کیا ہے اور علاقائی ترقی کے ضامن اس منصوبے کے حوالے سے پھیلائی جانیوالی غلط فہمیوں کا امریکہ، بھارت اور دوسرے سازشی عناصر کو دو ٹوک جواب دے کر ازالہ کیا ہے۔ درحقیقت پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے سے سب سے زیادہ پریشانی ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو ہی لاحق ہوئی تھی کیونکہ بھارت پاکستان کو اقتصادی تجارتی طور پر مستحکم اور اس کے عوام کو خوشحال ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اس کی یہ بدنیتی قیام پاکستان کے وقت سے ہی در آئی تھی جس نے پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنا اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصہ بنا لیا۔ چنانچہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے اس کے استحکام اور خوشحالی کی ضمانت بننے والے ہر منصوبے کی مخالفت بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیتا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ متنازعہ بنوا کر آج تک شروع نہیں ہونے دیا جبکہ وہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی بھی اسی نیت سے کرتا رہا ہے کہ اس کی سلامتی اور خود مختاری محفوظ نہ ہونے دی جائے۔ بھارت نے شروع دن کی بدنیتی کے تحت ہی مسلم اکثریتی آبادی والی خود مختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ میں درخواست ڈال دی۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ پاکستان تو آج بھی کشمیر کو متنازعہ ہی سمجھتا ہے اور اس کا حل یو این قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی منشاء کے مطابق چاہتا ہے جبکہ اسے متنازعہ قرار دینے والا بھارت اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو کب کا اپنی ریاست کا درجہ دے چکا ہے۔
پاکستان نے جب بلوچستان کی گوادر پورٹ کو وسعت دے کر اسے اقتصادی راہداری کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت اس کی مخالفت پر بھی کمر بستہ ہو گیا کیونکہ اسے اقتصادی راہداری کے ذریعے پاکستان کے عالمی منڈیوں تک راستے استوار ہوتے نظر آئے، جس کی بنیاد پر پاکستان میں تجارتی اور اقتصادی استحکام اور اس کے عوام کی خوشحالی نوشتہ ٔ دیوار تھی۔ بھارت نے اس مقصد کیلئے بلوچستان میں اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کا جاسوسی نیٹ ورک قائم کیا اور جب اقتصادی راہداری کیلئے پاکستان اور چین کے مابین معاہدہ طے پایا تو بھارت کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے اور اس نے اسے سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ اس کیلئے اس نے بلوچستان میں قائم ’’را‘‘ کے جاسوسی نیٹ ورک کو کلبھوشن کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورک میں تبدیل کیا جس نے بلوچستان اور ملک کے دوسرے اہم شہروں میں خود کش حملے اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ پاکستان کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر پیدا کرکے چین کو اس کے ساتھ اقتصادی راہداری میں شریک ہونے سے روکا جا سکے۔ اس مقصد کیلئے متعدد چینی مزدوروں اور انجینئروں کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا مگر پاکستان اور چین کی شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ سی پیک میں شراکت داری سے یہ دوستی مزید مستحکم ہو گئی۔ بھارت کو اپنے دہشت گردی کے منصوبے کے ذریعے پاکستان اور چین میں کسی قسم کی دراڑ پیدا کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود بیجنگ جا پہنچے اور وہاں چین کی قیادتوں سے ملاقاتوں کے دوران انہیں پاکستان سے برگشتہ کرنے اور اقتصادی راہداری منصوبے سے چین کو باہر نکال لینے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی مگر چینی قیادت نے ان کی ایک نہ سنی اور وہ ٹکا سا جواب لے کر واپس آ گئے۔
بے شک بھارت اور چین کے مابین اقتصادی اور تجارتی روابط قائم ہیں اور بھارت چینی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے مگر اس خطے میں چین کیلئے پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت بھارت سے کہیں زیادہ ہے جبکہ اس خطے میں امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے باہمی مراسم سے چین اور پاکستان فطری طور پر ایک دوسرے کے مزید قریب آئے اور ایک دوسرے کی دفاعی ضرورتوں کے تناظر میں بھی پاک چین دوستی کی بنیاد مزید مستحکم ہو گئی۔ اس صورتحال میں امریکہ نے بھارت کو ایک فطری اتحادی قرار دے کر اسے علاقے کی تھانیداری دینے کا عندیہ دیا تو بھارت کو پاکستان کے ساتھ اپنے خبثِ باطن کی بنیاد پر امریکہ کو بھی سی پیک کے خلاف استعمال کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ امریکہ نے بھارت کے ایماء پر ہی سی پیک پر یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ راہداری کشمیر میں شامل شمالی علاقہ جات کے متنازعہ علاقہ سے گزرے گی اس لئے اس کی تعمیر مناسب نہیں۔ یہی بھارت کا خبثِ باطن ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست کا درجہ دے کر پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر کو دنیا کے آگے متنازعہ بنا کر پیش کرتا ہے اور پھر اس پر بھی اپنا حق جتاتا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ ماہ ستمبر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان کے چند گھنٹے کے دورے کے بعد بھارت گئے تو امریکی وزیر دفاع پہلے ہی نئی دہلی میں موجود تھے چنانچہ واشنگٹن انتظامیہ کے ان دونوں اہم عہدے داروں کو مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف رام کیا اور ان کے دورے کے حوالے سے امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ میں غیر معمولی طور پر پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے پر امریکہ اور بھارت کی مشترکہ تشویش کا اظہار کیا گیا اور پاکستان اور چین سے اس منصوبے پر نظرثانی کا تقاضا کیا گیا۔ یہ بلاشبہ سی پیک کے خلاف عالمی سازش قرار دی جا سکتی ہے جس کا کچھ عرصہ قبل چینی سفیر نے بھی اظہار کیا تھا۔
یقیناً اس سازش کے تحت ہی پاکستان کے بعض حلقوں کی جانب سے بھی سعودی عرب کے سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جس کیلئے جواز پیش کیاگیا کہ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت ایران کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ یہ در حقیقت سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی امریکی بھارتی ایماء پر ہونے والی عالمی سازش ہی کی ایک کڑی ہے جبکہ سی پیک کے خلاف اس سازش کے تانے بانے بھاشا ڈیم کے حوالے سے بھی بنے جا رہے ہیں اور اب پاکستان کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے معاملہ پر بھی سی پیک کے پاکستانی معیشت پر بوجھ بننے کا مذموم پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس کا چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز مسکت جواب دیا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ چین اور پاکستان دونوں کو سی پیک کے خلاف جاری ان سازشوں کا مکمل ادراک ہے اس لئے نہ صرف ان سازشوں کی بنیاد پر چین اور پاکستان کے مابین کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی بلکہ ان دونوں ممالک کی قیادتیں سی پیک کی مقررہ وقت کے اندر تکمیل اور اسے آپریشنل کرنے کیلئے بھی یکجہیت ہو چکی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا گزشتہ ماہ کا دورۂ چین سی پیک کے خلاف امریکہ اور بھارت کی جاری سازشوں کو غیر موثر بنانے اور دو طرفہ اعتماد و یکجہتی کو مزید مستحکم کرنے کے سلسلہ کی ہی کڑی تھی جس کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے جبکہ اب وزیراعظم عمران خاں کے اس ماہ کے دورۂ چین سے سی پیک کے خلاف سازشوں کا مزید مؤثر توڑ ہو جائے گا۔ اگر چینی وفد نے وزیراعظم عمران خاں سے ملاقات کے موقع پراسی تناظر میں پاکستان چین تعلقات کی سٹرٹیجک اہمیت کو اُجاگر کیا ہے تو یہی پاک چین میٹھی، گہری اور مضبوط دوستی کی علامت ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سی پیک پاکستان اور چین ہی نہیں، اس پورے خطے کے عوام کی ترقی، خوشحالی اور امن و آشتی کی نوید بن رہا ہے جو آپریشنل ہو گا تو یہاں عملاً اقتصادی انقلاب آ جائے گا۔ اب ہماری جانب سے کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہمارے ملک کے اندر سے کسی کو سی پیک کے خلاف عالمی سازشوں میں آلۂ کار بننے کی جرأت نہ ہو۔ اس کیلئے حکومت کی صفوں کے اندر سے بھی سی پیک پر چین کے ساتھ یکجہتی کا ٹھوس پیغام ہی جانا چاہئے۔ ملکی مفادات کے تحت بے شک سی پیک کو وسعت دی جا سکتی ہے تاہم ایسا چین کے ساتھ مکمل افہام و تفہیم کے تحت ہی کیا جانا چاہئے۔