بدھ ‘ 7؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 17اکتوبر 2018ء
پاکستان سے ملنے والی سرحد پر ہتھیاروں کی پوجا کریں گے: بھارتی وزیر داخلہ
اب یہ کوئی انہونی بات تو نہیں کی بھارتی وزیر داخلہ نے۔ مہلک ہتھیار تو نجانے کب سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ منسلک سرحدوں پر لگائے ہوئے ہیں۔ اب انہوں نے صرف اپنے خبث باطن کا کُھلے عام مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے کہ وہ اس بار دسہرا کاتیوہار بیکانیر میں منائیں گے۔ اس موقع پر وہ ’’شستر پوجا ‘‘ یعنی ہتھیاروں کی پوجا بھی کریں گے۔ راج ناتھ جی کو بس یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان کے پاس بھی بے شمار ’’برہما استر‘‘ موجود ہیں۔ غلطی سے کوئی پھلجڑی بھی چلی تو پورے بھارت میں راون کے پتلے نہیں بی جے پی کے پتلے جلیں گے۔ شاید راج ناتھ بھول رہے ہیں کہ ہندو مذہب میں یہ تیوہار راکھششوں کے سروناش کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا جانتی ہے کہ راکھشش کون ہے۔ کس کے ملک میں اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ کون ہے جو اپنے ہولناک ہتھیاروں کا ڈراوا دے کر دوسروں کو دھمکا رہا ہے۔ اس وقت تو بھارت میں رام راج کے نام پر راون کے پجاری بی جے پی والے جو انیائے مچا رہے ہیں۔ اس پر تو صرف راون ہی خوش ہوتا ہو گا۔ راج ناتھ اب سرحدوں پر آ کر ہتھیاروں کی پوجا کریں یا کسی گائے کی۔ اس سے پاکستان کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ جن ہتھیاروں کی بھارتی مہاشے پوجا کرتے ہیں وہ پاکستانی مجاہدوں کے ہاتھوں کا زیور ہیں اور انہیں ہی شوبھا دیتے ہیں کیونکہ یہ ہتھیار ان کے داس ہیں، دیوتا نہیں۔ دیوتا کی پوجا ہوتی ہے جبکہ داس سے کام لیا جاتا ہے تو راجناتھ اب خود سوچ لیں فائدہ میں کون ہو گا۔ ہتھیاروں کے آگے سر جھکانے والا یا ہتھیاروں سے سر کاٹ کر پھینکنے والا…
٭٭٭٭
مہنگائی کی وجہ سے الیکشن میں شکست ہوئی۔ ہمایوں اختر
ہمایوں اختر نے مقابلہ تو خوب کیا مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔ حکومتی اقدامات کانزلہ تو بہرحال کسی پر گرنا تھا،سو ان پر گرا۔ لاہور میں تو حکومتی امیدواروں کی جیت کا چانس زیادہ لگ رہا تھا مگر یہ جو بجلی، گیس اور پٹرول بم کے پھٹنے سے عوام میں افراتفری پھیلی اور اس افراتفری میں ووٹروں نے بلے کی جگہ شیر پر مہر لگا دی۔ اب ہمایوں اختر کا یہ کہنا کہ میں نے وزیراعظم کو گیس کی قیمت میں اضافہ سے روکا تھا، ہونی کوکب ٹال سکتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ ووٹر پارٹی کی محبت سے پہلے اپنے پیٹ اور اشیاء کے ریٹ پر نظر ڈالتا ہے۔ بعد میں یہی دونوں مل کر اسے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ایک بات البتہ حیرانی کی ہے ہر ناکامی کے پیچھے وزیراعظم کا ہاتھ کیوں دکھائی دیتا ہے۔ کیا یہ سارے فیصلے انہی کے کہنے پر ہوتے ہیں۔ ایسا تو آمریت میں ہوتا ہے۔ اس وقت تو ملک میں جمہوری نظام قائم ہے تو پھر کیا وزارتیں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ٹائمنگ پر توجہ نہیں دیتیں جس کا جو دل چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ بھینسوں، گاڑیوں کی نیلامی کے علاوہ بھی پاکستان میں کرنے کے بہت سے کام ہیں۔ خدارا حکومت اس طرف توجہ دے۔ باقی کام بعد میں ہوتے رہیں گے مزید مہنگائی بم پھٹنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے ، بصورت دیگر ہونے والے نقصان کی ذمہ داری بھی کہیں وزیراعظم پر ہی نہ ڈالی جائے۔ اس لئے بجلی، گیس اور پٹرول کو کنٹرول کرنا اور آٹا دال چاول چینی کو قابو میں رکھنا ہو گا…
معیشت کی بہتری کے لئے مل بیٹھ کر کام کرنے کو تیار ہیں: خورشید شاہ
یا اللہ خیر یہ اچانک پیپلز پارٹی والوں کے دلوں میں حکومت سے محبت کے زمزمے کیوں پھوٹنے لگے۔ یہ خورشید شاہ جی کی زبان اچانک آگ اگلتے اگلتے کیسے پھول جھڑنے لگی ۔ لگتا ہے اچانک ہی سب اچھا ہونے لگا ہے۔ اگر خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی والے واقعی معیشت کی بہتری کے لیے بے چین ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ معاشی حالات میں بہتری آئے تو پھر انہیں حکومتی اعلانات پر عمل کرتے ہوئے دبئی، برطانیہ اور فرانس میں موجود بقول حکومت اربوں ڈالرز پرمبنی پوشیدہ اور بے نام کھاتوں میں پڑی دولت سب سے پہلے پاکستان لانی چاہئے تاکہ ملکی معیشت اور حکومت کو سنبھالا ملے۔ اس طرح حکومت آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بھی محفوظ رہے گی اور پیپلز پارٹی کی شکرگزار بھی ہو گی۔ دونوں جماعتوں میں محبت کا دوستی کا نیا سفر شروع ہو گا۔ خورشید شاہ جی کا یہ بیان احتساب عدالتوں اور نیب کوسامنے دیکھ کر دیا گیا لگتا ہے۔ اب ایک اطلاع ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو جو حکومت کے کھاتے سے مفت منرل واٹر (پانی) ملتا تھا اب وہ بند کر دیا گیا ہے۔ اب اس سے بڑی قیامت اور کیا ہو گی پیپلز پارٹی والوں کے لئے کہ ان کے چیئرمین کا پانی بند کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے حکومت کے اس عمل کے بعد نیب اور احتساب والے ان کا حقہ کب بند کرتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں ازلی رشتہ قائم ہے۔…
٭٭٭٭٭
عوام ٹیکس دیکرنئے پاکستان کا حصہ بنیں: اسد عمر
عوام کے پاس رہ ہی کیا گیا ہے جس میں سے وہ ٹیکس دیں۔ سوا ئے سانس لینے کے ہوا اورسینکنے لئے دھوپ کے۔ باقی سب چیز وںپرتو عوام ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ خواص تو ان سے حاصل شدہ ٹیکسوں پر عیاشیاںکرتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے بیانات حکومت میں آنے سے قبل کیا تھے اور آج کیا ہیں۔ پہلے کہتے تھے خواص سے، اشرافیہ سے، دولت مندوں سے ٹیکس لیں گے، غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ آج کہہ رہے ہیں عوام ٹیکس دے کر نئے پاکستان کا حصہ بنیں۔ عوام تو 70 برس سے اپنا فرض اداکررہے ہیں سچ یہ ہے کہ عوام ہی پاکستان ہیں جن کے دم سے یہ ملک چل رہا ہے۔ یہ بے چارے نہ بجلی چوری کرتے ہیں نہ گیس۔ ہر بل یوٹیلٹی ہو یا راشن کی خریداری کا۔ سب پر پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے صلے میں انہیں ملتا کیا ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری اورافلاس کا تحفہ پھر بھی اگر کوئی حکمران ان سے حصہ مانگتے ہیں تو بے چارے جن کے پاس صرف تن کے کپڑے رہ گئے ہیں وہ تو اتار کر دینے سے رہے۔ پھر بھی حکمران ان کو کچھ دینے کی بجائے الٹا ان سے لینے کے چکر میں ہی پڑے رہتے ہیں ۔
٭٭٭٭